تفهيم السراجي كيا هے ایک تعارف۔
حضرت مولانا الشيخ ڈاکٹرسيدشير علي شاہ المدني حفظہ اللہ تعالي
'' بسم اللہ الرحمن الرحيم ''
الحمد لِلّہ وکف?ي وسَلام علي عبادہ الّذين اصطفي ،
اما بعد،
محترم مولانا مفتی محمدفہیم صاحب حفظہ اللہ تعالي ورعاہ کي گرانقدر زرين تاليف
تفہیم السراجی
کے جستہ جستہ مقامات کے مطالعہ سے حددرجہ سرور وانبساط ہوا?
کے جستہ جستہ مقامات کے مطالعہ سے حددرجہ سرور وانبساط ہوا?
ماشاء اللہ ?مولاناموصوف نے علم ميراث کے جملہ مسائل واحکام،شستہ شگفتہ سليس اردوزبان
ميں زيب قرطاس فرمادئے ہيں?علوم دينيہ ميں علم ميراث ايک اہم بنيادي علم ہے جسکے بارے ميں ارشادنبوي ہے کہ علم ميراث سيکھ لو اور ديگرلوگوں کوبھي يہ علم سکھادو،
ہمارے جامعات اسلاميہ اور ديني مدارس ميں سراجي کي کتاب پڑھائي جاتي ہے
مولانا موصوف نے پوري محنت سے ميراث کے مشکل مسائل کو حل شدہ مثالوں سے بہت ہي آسان کردئے ہيں?بالخصوص عول اوررد،تخارج،مقاسمة الجد،مناسخہ اور ديگرمشکل مسائل کو حلشدہ مسائل سے عسل مصفي بنادئے ہيں ?
بارگاہِ ال?ہي ميں دست بدعاہوں کہ وہ اس علمي کاوش کو شرفِ پذيرائي عطافرماکرطلبہ ? علومِ دينيہ کو اس سے استفادہ کي توفيق نصيب فرمادے
وصلي اللہ تعالي? علي اشرف رسلہ وخاتم انبيائہ وعلي آلہ واصحابہ اجمعين،
کتبہ شيرعلي شاہ کان اللہ لہ'
10/2/1432ھ خادم الحديث بجامعة دارالعلوم الحقانيہ اکوڑہ خٹک
تقريظ
امام الصرف والنحو حضرت مولانا مفتي محمد حسن صاحب مدظلہم
امام الصرف والنحو حضرت مولانا مفتي محمد حسن صاحب مدظلہم
تقريظ
امام الصرف والنحو حضرت مولانا مفتي محمد حسن صاحب مدظلہم
بسم اللہ الرحمن الرحيم
نحمدہ ونصلي علي رسولہ الکريم
ا?مابعد! اللہ رب ذوالجلال کا بہت
بڑااحسان ہے کہ انہوں نے اپنے دين مبين کي حفاظت کا ذمہ خودلے رکھا ہے جيسا کہ
ارشادرباني ہے:
( انا نحن نزلنا
الذکر وانا لہ لحافظون )
عالمِ اسباب ميں اس کي حفاظت کا انتظام يوں
فرمايا ہے کہ اہل حق کي ايک جماعت کو چن ليا ہے جو ہر دَور ميں دين مبين کے تمام
شعبوں کي نگہباني کا فريضہ سرانجام ديتي رہے گي،اسي عظيم قافلہ کي ايک نيک خوش
نصيب ہستي حضرت مولانامفتي محمد فہيم زيدمجدہم کي ہے، جنہوں نے بڑي محنت اور محبت
سے علمِ ميراث کي ايک عظيم کتاب ''سراجي''کي ''تفہيم السراجي''کے نام سے بڑي اچھي
اور عمدہ شرح لکھي ہے جس کا مطالعہ قارئين کے ليے مفيدہوگا، ان شاء اللہ? اللہ پاک
کي بارگاہ ميں التجاء ہے کہ وہ ہمارے عزيز بھائي کي اس نيک کاوش کو اپني بارگاہ
ميں قبول فرماوے اور دارين کي سعادتوں کا حصول کا ذريعہ بناوے آمين?
محتاج دعاء : محمد حسن عفي عنہ
خادم مدرسہ محمديہ وجامعہ مدنيہ جديدلاہور
…تمہید
اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ
عَلي رَسُوْلِہ الْکَرِيْمِO
اللہ تعالي? نے جس طرح اپنے بندوں پر زندگي
کے ديگر مراحل ميں اپنے احکامات اور قوانين لاگوفرمائے ہيں ،اس طرح انسان کے مرنے
کے بعد پيدا ہونے والے مسائل کے حل کے ليے بھي اپنا ايک آسماني قانون نازل فرمايا
ہے ،جسے ''اسلامي قانون وراثت ''کہاجاتاہے ،اس امت کا سب سے بڑا فتنہ مال ہے ،اسي
وجہ سے بھائي ،بھائي کا دشمن ہو جاتا ہے ،دوسروں کي بے حرمتي اور تعصب کا سبب مال
ہے، حسدوکينہ،بغض وعداوت مال کي وجہ سے ہوتي ہے ،محبت ونفرت کا معيار اسي مال کو
قرار ديا جارہا ہے،ڈاکہ زني اور بے راہ روي کا ذريعہ يہي مال ہے ،قطع رحمي اور
خاندانوں ميں تفرقہ اسي وجہ سے ہے،ان سب مسائل کا حل اللہ تعالي? کے نازل کردہ
قوانينِ تقسيم ِ مال 'زکوة اور ميراث' کے اسلامي قوانين پر صحيح صحيح عمل کرنا
ہے?زکو?ة کي صحيح تقسيم تو صرف مالدار اور صاحب ِنصاب ہي پر موقوف ہے ،ليکن ميراث
کا مال تو ہر مرنے والے کا ہوتا ہے،اگرچہ تھوڑا ہو،اس ميں تو مالدار اور غريب
برابر ہوتا ہے ?اس ليے غر يب پر ميت کي ميراث شرعي طور پر تقسيم کرنا واجب ہے اور
مالدار پر زکوة اور ميراث دونوںکا شرعي طريقہ سے تقسيم کرناواجب ہے?
اسلام سے قبل اور بعد ميں بھي ہر دور کے لوگوں نے
ميت کي ميراث کے ليے اپنے خود ساختہ قوانين بنائے ہيں ،جاہليت کے دور ميں ايک قبيح
رسم يہ بھي تھي کہ مرداپني قوت وطاقت کے زور پر مرنے والے کا ترکہ صرف ان لوگوں کا
حق سمجھتے تھے ،جو لوگ گھوڑے پرسوار ہوکر دشمنوں کو قتل کرکے مال غنيمت بٹورنے کے
فن ميں خوب مہارت رکھتے ہوں ?اس ظالمانہ اور جابرانہ قانون ميں عورتوں اور بچوں کو
ميراث سے محروم رکھاجاتاتھا،يہ زمانہ جاہليت کا خود ساختہ قانون تھا ،ليکن افسوس
ہے آج کے مسلمانوں پرکہ اسلامي قانون کے نازل ہونے کے باوجود تقريبا ً نوے فيصد سے
زيادہ لوگ اللہ تعالي? کے نازل کردہ احکامات کو پسِ پشت ڈال کر عورتوں کو ميراث سے
محروم کرنے کي مختلف تدابير کرتے ہيں،حالانکہ اللہ تعالي? نے کھلے الفاظ ميں حکم
ديا ہے (وَلِلنِّسَائِ نَصِيْب مِّمَا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ) کہ
عورتوں کا اپنے والدين اور رشتہ داروں کي ميراث ميں ايک حق ہے ?
قرآن حکيم انسان کے خودساختہ قوانين کو علي
الاعلان باطل قرار دے چکا ہے ،اب بہن کو مختلف طريقوں سے باپ کي ميراث سے محروم
کرکے پھر يہ کہنا کہ بہن نے بھائي کو ميراث کا حق معاف کردياہے سوائے شيطاني حيلہ
کے اَور کيا ہوسکتاہے ؟…يہ کہاں کاانصاف ہے کہ بھائي تو والدين کے مال پر قبضہ
جماکر مزے اڑائيں ،اور يتيم بھائي اور بہنيں اِدھر اُدھر کے دھکے کھا تے پھريں
،ايک ہي چھاتي کا دودھ پي کر اس کي جزاء ايسي ہوني چاہيے؟ …کيا لوگ اللہ تعالي? کے
قوانين سے ايسے غافل ہوگئے ہيںکہ يتيموں،بيواؤں،ماؤں اور بہنوں کا مال پيٹ ميں
ڈال کر ان کو کبھي يہ خيال نہيں آياکہ وہ اپنے پيٹوں ميں آگ ڈال رہے ہيں ؟…کيا
زمين کے ايک بالشت کے ٹکڑے پر قبضہ جماکر قيامت کے دن ان کے گلے ميں کئي زمينوں کا
طوق نہيںڈالا جائے گا؟…کيا يہ سارا کچھ بہن کے مرنے کے بعد اسے صرف کفن پہنانے اور
جہيزکا سامان دينے سے معاف ہوجائے گا?اس کي سب سے بڑي وجہ لوگوں کي دين سے دوري ہے
?
آج ايک طرف تو معاشرے کے وہ لوگ ہيں جو اپني
جہالت يا حُبِّ دنياکي وجہ سے قوانين ميراث پر عمل نہيں کرتے اوردوسري طرف اس علم
کو سيکھنے کي طرف بھي توجہ نہيں کي جاتي ،ايک عام آدمي تو دور کي بات،علماء خصوصاً
خطباء حضرات نے اپنے خطبات ميں اس موضوع پر بحث کرني چھوڑدي، ناجائز قبضوں اور
حرام مال کھانے پروارد وعيديںسناني چھوڑديں اور طلباء نے بھي اس علم کي تحصيل ميں
چشم پوشي سے کام لينا شروع کرديا ہے،حالانکہ حضور اقدس صلي اللہ عليہ وسلم نے علم
ميراث کے مسائل سيکھنے اور سِکھانے پر کتنا ابھارا ہے ،فرمايا :( تعلمواالفرائض
وعلموہ الناس فانہ نصف العلم) (علم ميراث سيکھو اور اسے دوسروں کو سکھلاؤ ،کہ يہ
نصف علم ہے)علم ميراث کو نصف علم بتلانے سے اس کي فضيلت بيان کرنامقصود ہے? جس علم
کے جاننے والے جتنے کم اور مفقود ہوں تو اس علم کي فضيلت اتني ہي بڑھ جاتي ہے ?
ہمارے مدارس اسلاميہ کے آٹھ /دس سالہ نصاب ميں
علم ميراث کے موضوع پر صرف اور صرف ايک ہي کتاب ''السراجي في الميراث '' شامل نصاب
ہے ?اور وہ بھي مستقل طور پر نہيں پڑھائي جاتي ،بلکہ دوکتابوں کے ضمن ميں اس علم
کا بھي صرف کچھ ہي حصہ شامل نصاب ہے?طلباء اوراساتذہ بھي بس مسئلہ مناسخہ (يکے بعد
ديگرے کئي اموات کامسئلہ)تک ہي پہنچنے پر راضي ہو تے ہيں ،اور پھر بھي ذہن ميں
پہلے سے يہ ہوتا ہے ،کہ علم ميراث اور سراجي ايک مشکل کتاب اور پيچيدہ فن ہے،بعض
علمائے کرام نے اس غلط خيال کو تبديل کرنے کے ليے اس موضوع پر مختلف انداز ميں
کتابيں اور سراجي کي اردو شروحات لکھيں، تاکہ کوئي اس فن اور علم کو مشکل کہہ کر
چھوڑ نہ دے ?راقم نے بھي اسي مقصد کے ليے ''تفہيم السراجي ''کے نام سے ايک کتابچہ
مرتب کيا ہے ،تاکہ راقم کا نام بھي اس فہر ست ميں شامل ہوجائے ،جس طرح ايک بوڑھي
عورت نے حضرت يوسف علي? نبينا وعليہ الصلوةوالسلام کے خريداروں ميں اپنا نام
لکھوايا تھا?يہ کوئي مستقل تصنيف يا تاليف نہيں ہے ،بلکہ جس طرح بندہ نے مختلف
اساتذہ کرام سے اس فن کو پڑھا ہے،ان سب کي تقارير اور استفادے کا مجموعہ ہے ،جو
افادہ عام کے ليے پيش خدمت ہے ?
بندہ کے سب سے پہلے''السراجي في الميراث '' کے
استاذ حضرت مولانا عبد القيوم صاحب مدّظلہ (سابق ناظم جامعہ فريديہ اسلام آباد)
ہيں ،بڑے مشفق ،رحم دل اور ماہر ميراث استاد ہيں ،انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ
پوري کتاب پڑھائي،دوسري مرتبہ حضرت مولانامحمودالرحمن صاحب سے جامعہ فريديہ ہي ميں
تخصص کے دوران پڑھي ،انہوں نے بھي بہترين ترتيب سے مکمل کتاب خوب محنت سے پڑھائي
،پھر جامعہ ندوة العلم کراچي ميں مفتي محمد علي صاحب سے اور چوتھي مرتبہ ايک شفيق
اور مہربان استاد مفتي محمد رئيس سروہي صاحب سے (زيرنگراني حضرت اقدس مفتي حميد
اللہ جان صاحب مدظلہ)دارالافتاء والارشاد لاہورميں پڑھي،اور علم ميراث کا سب سے
پہلا سبق جديد طريقہ سے درجہ ثانيہ کے دوران اسلام آبادميںانجينئر ملک بشيراحمد
بگوي صاحب (باني عالمي اسلامي متحرک يونيورسٹي)سے پڑھا تھا?ان کے خلوص کي برکت سے
علم ميراث ميں دلچسپي پيدا ہوئي?يہ سب کچھ ان اساتذہ کي محنت ،دعاؤں اور خلوص کا
نتيجہ ہے،اللہ تعالي? ا ن کو اور ميرے سب اساتذہ کو جزائے خير عطافرمائے اور ان کے
درجات بلند فرمائے?اس کتاب کي بنيادي ترتيب وہي ہے جو مفتي محمود الرحمن صاحب نے پڑھائي
تھي،البتہ کچھ مقامات پر عبارات ميں ضروري تراميم اور کچھ فوائد بڑھادئيے اور ہر
حکم کے ساتھ مثالوں کا اضافہ اور بعض مقامات پر حوالہ کے طور پر سراجي کي عبارت کي
طرف بھي اشارہ کيا گيا ہے?
قارئين اور خاص طور پر مفتيان کرام سے گزارش ہے
کہ جہاں عبارت صحيح ہو، اسے ميرے اساتذہ کي طرف اور جہاں کوئي لفظي يا علمي غلطي
پر مطلع ہو ں تو اسے راقم کي طرف منسوب کيا جائے ،اور اس پر ضرور متنبہ فرمائيں
،تاکہ آئندہ طباعت ميں اس کي تصحيح کي جائے ?
اللہ تعالي? سے دعا ہے کہ راقم کي اس محنت کو
قبول فرماکر راقم اور والدين اس کے ،اساتذہ اور مخلص دوستوں جنہوں نے کسي بھي طرح
کا اس کتاب کي تصحيح وطباعت ميں تعاون کيا، ان سب کے ليے ذريعہ نجات
بنائے(آمين ثم آمين)برحمتک يا ارحم الراحمين والصلوة والسلام علي نبيناخاتم
المرسلين محمد وآلہ وصحبہ اجمعين ?
کتاب کا انداز اور خصوصيات
ابتداء سے آخر تک کتاب کا اندازِ بيان اس طرح ہے
کہ غير ضروري بحث اور مسائل کي طرف خاص توجہ نہيں دي گئي ،بعض وہ مسائل جن کا تعلق
صرف فقہ سے يا وہ مسائل جن کا تعلق محض حساب سے تھا ان کو نظر انداز کرد گيا ہے
،مثلاً جمع ،منفي ،ضرب ،تقسيم وغيرہ کے بنيادي قواعد?کيونکہ اکثرطلباء کو يہ
قواعدياد ہوتے ہيں ،اس ميں صرف انہيں قواعد کو مدنظر رکھا گياہے جن کا تعلق فن
ميراث سے تھا،اگر ان کو سمجھ کر زباني يادکرلياجائے تو علم ميراث کے مسائل حل کرنے
ميں (ان شاء اللہ تعالي?)کبھي غلطي نہيں ہوگي?اس ليے مناسب يہ ہے کہ علم ميراث پڑھنے
والے طلباء کرام کوحساب اور فقہ کے ايسے ضروري مسائل جن کا محض حساب يا فقہ سے
تعلق ہو پہلے سے معلوم ہو ں،بصورت ديگر کسي استاد يا حساب جاننے والے(طالبعلم
وغيرہ)سے حساب کے ضروري قواعدجيسے: جمع ،منفي ،ضرب کے پہاڑے، تقسيم اورذواضعاف اقل
وغيرہ کے ضروري قواعد اور طريقہ سمجھ ليں?تاکہ ميراث کے مسائل حل کرنے ميں زيادہ
دقت نہ ہو?ہم نے ايسے مسائل کو يہاں اس ليے بيان نہيں کيا کہ اس سے کتاب کي بے
جاضخامت بڑھ جائيگي ، اور اکثر طلباء جن کو حساب کے بنيادي قواعد ياد ہوں ان پر
بوجھ ہوگا ?
علم فرائض ميں سب سے اہم چيزورثاء (ذوي الفروض
)کے احوال (احکام)ہيں ،کہ کس وارث کو کونسي صورت ميں کتنا حصہ ملتا ہے ?يہاں پران
کے حالات سراجي اور اس کي دوسري شروح سے مختلف ہيں ،اس مختلف ترتيب کا فائدہ يہ ہے
کہ جن جگہوں ميں مبتدئين علم ميراث پر عبارت مشتبہ اور بحث خلط ملط ہورہي تھي اور بظاہر
عبارات ميں تعارض نظرآرہا تھا يہ مسئلہ اس ترتيب ميں نہيں ہے ،بلکہ کسي بھي قسم کا
مسئلہ ہو ،احوال ترتيب سے پڑھتے جائيں اور جب ،شرط پائي جائے تو فوراً حکم لگاديں
،آگے پيچھے عبارت ديکھنے کي ضرورت نہيں اور ديگر طرق ميں جب کسي وارث کي تمام
حالتيں ،بيک وقت ذہن ميں نہ ہوں اور پوري عبارت آگے پيچھے نہ ديکھ لي جائے تو اس
وقت تک حکم لگانے ميں تردّد اور شک معلوم ہوتا ہے ،کہ آگے کوئي عبارت ايسي تو نہيں
جو اس حکم کے ليے مانع ہو?ہم نے يہاں پر اس طرح کے اشکالات اور شبہات کے ليے کوئي
راستہ نہيں چھوڑا ، نہ عبارت مبہم اورنہ ہي احکام ميں تعارض ہے ?جب بھي شرط پائي
جائے تو آنے والا حکم اعتماد کے ساتھ فوراً لگا ديا جائے ،کسي قسم کي جھجک محسوس
نہ کريں ?
بعض مقامات ميں صاحب سراجي hنے ايک وارث کے حالات کي تعداد الگ بيان کي ہے اور يہاں پر اس سے کم
حالات بيان ہوئے ہيں ،تاکہ زباني ياد کرنا آسان رہے ،اور جن جگہوں ميں صاحب
سراجي hسے حالات کي تعداد ميں اختلاف ہے ان کي وجوہ کو آخر ميں فائدہ کے تحت
ذکر کيا ہے،تاکہ کتاب بھي حل ہوجائے ?
کسي وارث کے حالات بيان کرتے وقت يہ کہنا کہ اس
کو نصف(آدھا حصہ) ملے گا،سدس (چھٹا حصہ)،عصبہ (بقيہ مال لينے کا مستحق)بنے گا
،وغيرہ کے الفاظ کو ''حکم '' کہيں گے?ہم نے ہر وارث کے حالات ميں ہر حکم کي ايک يا
کہيں پر ايک سے زائد مثالوںسے وضاحت کي ہے ? تاکہ حکم لگانے کے ساتھ ساتھ،اسکي
عملي مشق بھي ہو جائے?اور درمياني عبارت ميں اس حکم کے ساتھ مثال نمبر لگاديئے
ہيں،تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس حکم کي يہ مثال ہے ?
کئي مقامات ميں احکامات اور بحث کے ساتھ سراجي کي
عبارت کا ٹکڑا اور صفحہ نمبر ديا گيا ہے،تاکہ معلوم ہو کہ يہ بحث اور يہ حکم،
سراجي کي کس عبارت ميں موجود ہے اس سے کتاب حل کرنا بھي آسان رہے گا?
کسي بھي مضمون اور فن کي کتاب پڑھنے سے اصل مقصد
،کتاب پڑھنا اور محض کتاب کي عبارت حل کرنا نہيں ہونا چاہيے، بلکہ کتاب جس فن ميں
ہواس فن کو سمجھنا چاہئے جب فن سمجھ آجائے تو کتاب چاہے جس ترتيب سے بھي ہو اس کي
عبارت جيسي بھي ہو آساني سے حل ہو جائيگي ،اور ہم نے اس کتاب ميں اصل چيز يعني فن
ميراث کو سامنے رکھا ہے ،اس ليے بعض ابحاث جو صاحب سراجيh نے بعد ميں بيان کي ہيں يہاں پر اس بحث کو
مقدم کيا گيا ہے ،بعض ابحاث جن کو الگ الگ ذکر کيا يہاں پر يکجا کردي ہيں ?
فنِ ميراث ميں مہارت پيدا کرنے کے ليے اگر اس
مختصر سے کتابچے کو ازبر کرليا جائے توميراث کے کسي بھي مسئلہ کو حل کرنے ميں(ان
شاء اللہ) غلطي نہيں کريں گے?پہلے عبارت کومثالوں کے ساتھ خوب سمجھا جائے اور پھر
صرف سمجھنا کافي نہيں ،بلکہ اسے زباني ازبر يادکرکے اس کا تکرارکرنا چاہيے ،کتاب
(مباديات ميراث تا خاتمہ )کي ترتيب زباني ياد کرنے کے ليے دي گئي ہے ،البتہ مثاليں
اور اس کي تشريح زباني ياد کرنا ضروري نہيں،اس ليے عبارت مختصراور جامع لائي گئي
ہے ،غير ضروري طويل ابحاث سے اجتناب کيا گيا ہے?ضروري فوائد،ذوي الفروض اورعصبات
وغيرہ کے جامع نقشے آخر ميں خاتمہ کے اندر درج کئے گئے ہيں ، خاتمہ بھي زباني ياد
کرنا ضروري نہيں ،البتہ ايک مرتبہ اسے ضرور سمجھنا چاہيے? اوراگر پھر بھي کوئي کمي
رہے گي ،تووہ ہے مسائل کي تمرين اور مشق ?اللہ تعالي? کے فضل سے اس پر بھي کام
مکمل ہونے کو ہے ،ان شاء اللہ تعالي? اس سے بھي جلداز جلد آپ مستفيد ہوں گے،اور مشق
کي کسر جو باقي رہتي ہے وہ بھي ختم ہوجائيگي? راقم کا تجربہ ہے کہ اگر اس کتاب کو
ازبر کيا جائے اور ساتھ تمرين مکمل کي جائے تو کوئي بھي ميراث کا مسئلہ حل کرنا
،مسئلہ نہيں رہے گا?وللہ الحمد?
ع پرونا ايک ہي تسبيح ميں ان بکھرے دانوں کا
جومشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں
گا
(اقبال)
miras nisf elm hay ore s ka hosol zaroree hay.
ReplyDelete8530252903 رابطہ کیجئے وقت کم ہے
ReplyDelete