ایک چور کا عجیب واقعہ


شَیْخ عَلِیْ اَلطَّنْطَاوِی مصر کے مقتدر علماء میں سے ہیں انہوں نے قرآنِ کریم کی تفسیر بھی لکھی ہے جس کا نام ''جواہر القرآن'' ہے اس میں آپ نے علومِ جدیدہ سے متعلق بڑی تفصیلات پیش کی ہیں    جو قابلِ مطالعہ ہیں، آپ کے ایک پوتے ہیں مجاہد مامون انہوں نے آپ کی بہت سی یادداشتوں اور بہت سے متفرق مضامین کو اکٹھا کرکے ''علی الطنطاوی فصول فی الثقافة والادب'' کے نام سے شائع کیا ہے اس میں شیخ کا بیان کردہ ایک واقعہ نظر سے گزرا یہ واقعہ عبرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی جی چاہا کہ اپنے قارئین سے ذکر کیا جائے شاید کسی کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن جائے ملاحظہ فرمائیے   وہ واقعہ یہ ہے شیخ   فرماتے ہیں  : 
''ایک واقعہ اور پیش آیا ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ میں منفعت سے زیادہ جدت کار فرما ہو، تاہم یہ واقعہ ایسا ہے کہ میں اِس کے افراد واشخاص سے بذاتِ خود واقف ہوں، واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان (طالب علم) جس میں تقوی بھی تھا اور طالب علمانہ غفلت بھی تھی جب اُس نے ایک حد تک علم حاصل کر لیا تو اُستاذ صاحب نے  اسے اور اُس کے رفقاء کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا کہ تم لوگ (یہاں سے جا کر) دوسروں پر بوجھ نہ بن جانا، کیونکہ جو عالمِ دین دنیاداروں کے سامنے ہاتھ   پھیلاتا ہے اُس میں کوئی خیر نہیں ہوتی لہٰذا تم میںسے ہر کوئی اپنے گھر جائے اور اُس پیشے کو اختیار کرے جو اُس کے باپ کا ہے اور اُس میں اللہ کے حضور تقویٰ اختیار کرتا رہے، یہ نوجوان اُستاذ صاحب کی نصیحت سن کر اپنی والدہ کے پاس گیا
اور ان سے پوچھا کہ میرے والد کا پیشہ کیا تھا وہ کیا کیا کرتے تھے  ؟  ماں بیچاری  یہ سن کر پریشان ہوگئی، کہنے لگی کہ وہ تو اللہ کی رحمت کے حضور چلے گئے تمہیں اُن کے پیشے سے کیا غرض  ؟  یہ ماں سے اصرار کرتا رہا (کہ وہ اسے ضرور بتائے ) اور وہ جان چھڑاتی رہی یہاں تک کہ جب اُس نے ماں کو بولنے پر مجبور کردیا تو ماں نے اُسے انتہائی بددلی اور ناگواری کے ساتھ بتلایا کہ تمہارا باپ چور تھا، اُس نوجوان نے ماں سے کہا کہ اُستاذ صاحب نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے والد کے پیشے کو اپنائے اور اس میں تقویٰ اختیار کرے ۔ماں بولی افسوس ہے تجھ پر کیا چوری میں بھی تقویٰ ہوا کرتا ہے  ؟  علامہ طنطاوی فرماتے ہیں جیسا کہ میں  بتلا چکا ہوں کہ اس نوجوان میں طالب علمانہ غفلت تھی اُس نے ماں سے ( بے پروائی کے ساتھ )کہا کہ اُستاذ صاحب نے یوں ہی فرمایا تھا پھر وہ گھر سے نکل کھڑ ہوا   اور لوگوں سے (چوری کے متعلق) پوچھتا پاچھتا اور تھوڑی تھوڑی معلومات لیتا رہا حتی کہ اُسے پتہ چل گیا کہ چور کیسے چوری کرتے ہیں چنانچہ اُس نے چوری کرنے کے سازو سامان کی تیاری کی، عشاء کی نماز پڑھی اور لوگوں کے سونے کا انتظار کرنے لگا جب لوگ سوگئے تو وہ نکل کھڑا ہوا تاکہ اپنے والد کے پیشے کو اختیار کرے جیسا کہ اُستاذ صاحب نے کہا تھا۔ 
اس نے چوری کے لیے اپنے پڑوسی کے گھر سے ابتداء کی، معاً اُس کو یاد آیا کہ  اُستاذ صاحب نے تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کی تھی اور پڑوسی کو ایذا دینا تو  کوئی تقویٰ نہیں ہے، وہ اس گھر کو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا اور ایک دوسرے گھر کے پاس سے گزرا، جی میں کہنے لگا کہ یہ تو یتیموں کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال کھانے سے بہت ڈرایا ہے وہ یہ گھر بھی چھوڑ کر آگے بڑھا اور مسلسل آگے    چلتا رہا حتی کہ ایک مالدار تاجر کے گھر پہنچا جس کی فقط ایک بیٹی تھی (اور کوئی اولاد
نہیں تھی) اور سب لوگوں کو پتہ تھا کہ اِس تاجر کے پاس اس قدر مال و دولت ہے جو اُس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، دل میں کہنے لگا کہ بس چوری کے مناسب جگہ یہی ہے اور تالے کھولنے کے لیے جو چابیاں تیار کر رکھی تھیں اُن سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا، اُس نے دیکھا کہ نہایت کشادہ گھر ہے اور ڈھیروں کمرے ہیں ،وہ اُن کمروں میں گھومتا رہا یہاں تک کہ جس کمرے میں مال و دولت رکھی ہوئی تھی وہاں پہنچ گیا، اُس نے صندوق کھولا تو اس میں کثیر تعداد میں سونا چاندی نقد رقم موجود پائی اُس نے اِن کے اُٹھالینے کا اِرادہ کیا تو جی میں کہنے لگا  کہ نہیں اس طرح اُٹھانا مناسب نہیں کیونکہ اُستاذ صاحب نے تقویٰ اختیار کرنے  کا حکم دیا تھا ،یوں لگتا ہے کہ اِس تاجر نے اپنے اموال کی زکوة ادا نہیں کی لہٰذا پہلے ہم اِس کی زکوة نکالیں گے چنانچہ اُس نے رجسٹر اُٹھائے اور چھوٹا فانوس جو ساتھ لایا تھا اُس کو روشن کیا اور رجسٹروں کو چیک کرنے اور حساب لگانے لگا، یہ نوجوان چونکہ حساب میں ماہر اور رجسٹروں کی پڑتال سے پوری طرح باخبر تھا اس لیے   اُس نے تمام اموال کو شمار کر کے اِن کی زکوة کا حساب لگایا اور زکوة کی مقدار الگ کر کے ایک جانب رکھ دی اور پھر حساب کتاب میں مستغرق ہو گیا یہاں تک کہ  کئی گھنٹے گزر گئے اسی لمحے اُس نے نگاہ اُٹھائی تو دیکھا کہ صبح صادق ہوگئی ہے ،    جی میں کہنے لگا کہ اللہ کے حضور میں تقویٰ اختیار کرنا ہے لہٰذا پہلے ہم صبح کی نماز پڑھیں گے چنانچہ وہ صحن میں آیا حوض سے وضوء کیا اور نماز قائم کی، گھر کے مالک نے آواز سنی  تو اُٹھ کر دیکھنے لگا اسے بڑا عجیب منظر نظر آیا، فانوس روشن ہوا ہو ا ہے اموال کا صندوق کھلا پڑا ہے اور ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے، مالک کی بیوی نے مالک سے کہا کہ یہ سب کیا ہے  ؟  وہ بولا واللہ مجھے خود نہیں پتہ ، خیر وہ اس نوجوان کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ افسوس ہے تم پر آخر تم کون ہو اور یہ کیا معاملہ ہے  ؟  
اس نے کہا کہ میں چور ہوں پہلے نماز پڑھ لیں پھر بات چیت کریں گے چلو وضو کرو اور آگے ہو کر ہمیں نماز پڑھاؤ کیونکہ امامت گھر والے کا حق ہے، مالک نے اس  ڈر سے کہ کہیں اس کے پاس ہتھیار نہ ہوں (اور یہ مار نہ دے) جو اُس نے کہا وہ کیا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مالک نے کیسے نماز پڑھائی جب نماز پوری ہوگئی تو مالک نے اُس سے کہا کہ بتلاؤ تو سہی آخر تم کون ہو اور کیا ماجراہے  ؟  نوجوان نے کہا کہ میں چور ہوں ،مالک نے کہا کہ تم میرے رجسٹروں کے ساتھ کیا کررہے تھے  ؟  بولا میں اُس زکوة کا حساب لگا رہا تھا جو تم نے چھ سال سے نہیں نکالی، میں نے زکوة کا حساب لگا کر جتنی زکوة بنتی ہے وہ الگ کردی ہے تاکہ تم اسے اس کے مصارف  میں لگاؤ، قریب تھا کہ مالک تعجب کرتے کرتے پاگل ہوجاتا  !  مالک نے اس  سے کہا بتلاؤ تو تمہارا قصہ ہے کیا، کہیں تم پاگل تو نہیں ہو  ؟  اِس پر اُس نے مالک کو اپنا تمام قصہ بتلادیا۔
 جب تاجر نے اُس کی تمام بات سن لی اور اس کی شکل و صورت کی خوبصورتی اور حساب کے ضبط کو دیکھا تو اپنے بیوی کے پاس گیا اور اس سے بات چیت کر کے  اس نوجوان چور کے پاس واپس آیا اور اس سے پوچھا کہ اگر میں تم سے اپنی بیٹی  کی شادی کردوں اورتمہیں اپنے پاس اپنا ریڈر اور محاسب بنا کر رکھ لوں اور  تمہیں اور تمہاری والدہ کو اپنے گھر ہی میں رہائش دے دوں تو تمہارا کیا خیال ہے یہ کیسا رہے گا  ؟  وہ بولا مجھے منظور ہے میں اسے قبول کرتا ہوں، صبح ہوئی تو گواہوں کو بلایا گیا اور خطبۂ نکاح منعقد ہوگیا۔ ''
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تقوی ایک ایسی چیز ہے جو برے سے برے انسان کو بھی صحیح انسان بنا دیتا ہے، اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا 
فرمائے،آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ انوار مدینہ

No comments:

Post a Comment