داعی امن پیغمبر اسلام اور اسلاملیل ونہارکے آئینہ میں
بسم اللہ الرحمان الرحیم
تقویم
1-تقویم تاریخی مولفہ عبدالقدوس ہاشمی ،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے پہلی بار 1965ء میںشایع کی ۔ 1987 میں دوبارہ شایع ہوی، جب کہ اس میں طبع اول کے بعد 22 سال کے دوران رونما ہونے والے واقعاتشامل نہ کیے-نیز یہ قلمی نسخہ تھا- جس میں بعض نام واضح نہ تھے۔ ان کی تصحیح کر دی گیی ہے ۔ڈاکٹر محمد جنید ندوی کا محنت شاقہ سے تیار کردہ مسودہ ، اسلامی تاریخ کے واقعات بزبان انگریزی،ادارہ سے با ضابطہ حاصل کرکے ، اس کتاب میں شامل کرلیا گیا ہے۔موصوف کا کہنا تھا کہ ایک سال میں یہ تیار ہوا- قیلولہ کے لیے دفتر میں فرش پر سو جاتا تھا-یہ ایک عظیم قومی اثاثہ ہے- جو ایک نیے انداز میں قارین کرام کی خدمت میں پیشکررہا ہوں
صبح صادق
2- صبح صادق سے متعلق فقیہ العصر مفتی رشید احمد کی تحقیق یہ تھی کہ تقریبا پوری دنیا میں نماز فجر قبل از وقت پڑہی جا رہی ہے۔ تفصیل احسن الفتاوی میں موجود ہے۔اس میں صحیح مسلم کی حدیث کو اساس بنایا ہے، جس میں لفظ حتی سے یہ ثابت ہے کہ صبح کاذب اور صبح صادق میں جوڑ ہے۔اس بنیاد پر پرانے نقشے تو غلط ٹھہرے کہ جس میں بروجی روشنی کو صبح کاذب مان کر 18 ڈگری زیر افق پر ظاہر ہونے والی پہلی روشنیAstronomical twilight کو صبح صادق مان لیا گیا ہے۔بروجی روشنی افق شرقی پر 15 اگست تا 15 اکتوبر ،سال میں صرف دو ماہ نظر آتی ہے- تخریج وقت فجر کے لیے ہندسوں میں دونوں کی ابتدا کا جاننا ضروری ہے۔یہ کام علامہ شامی نے کردیا۔ ان کے مطابق فجرین میں تین ڈگری کا فرق ہے۔پشاور تا کراچی اور اسلام آباد تا ڈھاکہ بر صغیر کے سب دارالافتا'اسے مانتے اور اس کے مطابق فتوی دے چکے ہیں۔شامی کے قول کا بھی احسن الفتاو ی میں ذکر ہے-ویٹس ایپ اسلامی گروپ مفتی ریاض گل نے وہ کام کیا جو گزشتہ نصف صدی سے تعطل کا شکار تھا۔انہوں نے پرانے اور نیے نقشہ کے حامیوں کو موقع
6
فراہم کیا کہ وہ اپنے اپنے موقف کا دفاع پیش کرِیںَ-ظاہر ہے کہ مسلم 1094 متفق علیہ ، اس میں لفظ حتی بمعنی غایہ سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اور ادھر شامی کے مطابق فتاوی جاری ہو چکے۔راقم پرانے نقشہ کے حامیان سے صرف ایک سوال بار بار پوچھ چکا ہے کہ مسلم 1094 میں حتی بمعنی غایہ ہے کہ نہیں۔ ہاں سے انکار نہیں اور نہ کہیں تو ان مقتدر آٹھ سکالرز کو مطمین کرنا ممکن ہوتا، تو اب تک کر چکے ہوتے
عدم جواز
3-قاری محمد طیب نبیرہ مولانا محمد قاسم نانوتوی فرماتے تھے،کہ ہمیں دین کی وجہ سے عزت اور روٹی ملتی ہے۔جب حق بات کا علم ہوجایے، تو اپنی بات پر جمے رہنا،بہت سنگین بات ہے۔فرض نماز کا معاملہ ہے۔روز قیامت اپنی نمازوں کا حساب دینا مشکل ہوگا۔ علما کرام کے پاس اس کا کیا جواز ہے، جب مسلم 1094 کو مانتے ہیں اور شامی سے بھی انکار نہیں۔پھر پہل انہیں کرنا چاہیے۔ اکابر پرستی کی ہوا چل پڑی ہے کہ وہ کہیں تو ہم بھی۔اکابر نا معلوم کن کو کہتے ہیں۔ ان ہی سے پوچھ کر عوام کو بتا دیں۔سال گزشتہ امریکہ سے کسی نے دارالعلوم دیوبند لکھا کہ ہمارے ہاں 99 فی صد 15 ڈگری (نیا نقشہ) پر عمل کرتے ہیں۔ میں کیا کروں۔وہ کیا کہتے کہ مسلم پر عمل نہ کرنا
نقشہ 100 سالہ اوقات سحر افطار نماز و قبلہ ٹایم
4- ادارہ تحقیقات اسلامی نے 2014 میں ایک ڈایری اورنقشہ 100 سالہ اوقات نماز شایع کیا۔اس کے لیے راقم نے ملکی اور عالمی سطح کے آٹھ سکالرز سے فردا فردا مل کر توثیق کروای، کہ واقعی مسلم (1094) سے وصل ثابت ہے۔ان موقر سکالرز میں صدر جامعہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (سابق نایب ریکٹر جامعہ امام محمد بن سعود، ریاض، سعودی عرب) فضیلت مآب دکتور احمد بن یوسف الدریویش بھی شامل ہیں-اس کا اب شعور پیدا ہو چکا ہے۔ حال ہی میں تحقیق المسایل میڈیا سروس،جس کے روح و رواں ڈاکٹر مفتی شوکت علی ہیں، اس سلسلہ میں مستعدی سے کام کر رہے ہیں-اس ننھے سے ادارہ کے ایک رکن مولانا سید مکرم شاہ نے چند ماہ میں پاکستان کے 400 سے زاید مقامات کا نقشہ 100 سالہ اوقات نماز و سحر و افطار تیار کرکے ویٹس ایپ پر مفت فراہم کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے لیے اقم کے تیار کردہ ایکسل میں سافٹ ویر کو استعمال کیا ہے-ویٹس ایپ پر دنیا کے مختلف مقامات کے لیے،
اسی جذبہ کے تحت مطلوبہ مقام کا خوبصورت ڈیزاین کا نقشہ تیار کرکے بھیجتے رہتے ہیں-
افراد متحرک ہوں تو وہ اداروں کا سا کام کر پاتے ہیں
7
وجہ تسمیہ-100 سالہ
5- دایمی نقشہ لکھنے کا عام دستور ہے۔ کوی نقشہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔یہ کسی ایک سال کے شمسی ڈاٹا پر مبنی ہوتا ہے۔کیوں کہ سورج کی رفتار قدرے بدلتی رہتی ہے۔راقم نے پہلی بار2003 میں نقشہ اوقات نماز دعوہ اکیڈمی کی خوہش کے مطابق تیار کیا۔ اس میں ڈاکٹر کمال ابدالی کے سافٹ ویر رویت ہلال کی مدد سے 98 سال کا ہر روز کا نصف الانہار کا مقامی وقت اور میل شمس حاصل کیا۔ ہر مقدار کو جمع کرکے 98 (سال) پر تقسیم کرکے اوسط مقدار معلوم کی۔ اس سے آیندہ 98 سال کے دوران واقعی مقدار کے مقابلہ میں سال کی بعض تاریخوں کی بعض نمازوں کے وقت میں زیادہ سے زیادہ ایک (1) منٹ کا انحراف پایا گیا،جب کہ ہم تین منٹ کی احتیاطکا کہتے ہیں-تفصیل کتاب 100 سالہ اوقات نماز و قبلہ ٹایم، ملت بک شاپ فیصل مسجد میں دی گیی ہے-اسی بنا پر اسے 100 سالہ کا نام دیا۔ڈاکٹر کمال ابدالی کا سافٹ ویر اکیسویں صدی کے لیے ہے۔ سو نقشہ 100 سالہ بھی اسی مدت کے لیے۔ بعد میں چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے کہ یہی مزید چند سال (سن 2100 کے بعد تک کام کرجایے
پس منظر
6- قبلہ ٹایم کا پس منظر یہ ہے کہ مفتی رشید احمد نے راقم کو البیرونی کا طریقہ لکھ بھیجا، جس کی مدد سے زمین پر عملا شمال رخ لکیر لگای جا
سکتی ہے۔ اس کے لیے زمین کا ہموار ہونا لازم ہے۔سوچا کہ پہلے زمین پر شمال رخ خط کھینچیں اور پھر اس کی نسبت سے قبلہ کا نشان ۔
کیوں نہ قبلہ رخ کا وقت محسوب کرلیا جایے
7-وفاق المدارس میں کوی 20 سال قبل فلکیا ت کو داخل نصاب کیا گیا۔فلکیات کی شرعی ضرورت تخریج اوقات نماز اور جہت قبلہ ہے۔عملا قبلہ کے تعین کے لیے اتنا کافی نہیں کہ اسلام آباد سے قبلہ کا زاویہ از شمال 104ڈگری ہے-اس کے لیے کمپاس کا ہونا بھی کافی نہیں، کیوں کہ یہ مقناطیسی شمال کا رخ بتاتی ہے۔ جب کہ تخریج ، قطبی شمال کے حوالہ سے کی جاتی ہے۔ قطبی اور مقناطیسی شمال میں آج کل اسلام آباد میں دو(2) ڈگری کا فرق ہے۔ مقنا طیسی شمال کینیڈا کے ایک جزیرہ میں ہے۔اور یہ حرکت میں ہے۔ سروے آف پاکستان نے اس کی پیمایش کے لیے ملک بھر میں 200 مقامات پر اہتمام کیا ہے۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد، زمین پر خط شمال سے قبلہ(مکہ) کا زاویہ بنانا، کارے دارد۔ اس کے لیے زمین کا ہمور ہونا ضروری ہے۔اور پھر زاویہ کس آلہ سے لگایں گے
قبلہ ٹایم
8- راقم نے قبلہ ٹایم کی تخریج کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ راقم کا تیار کردہ سافٹ ویر، دن کے وہ چار اوقات بتاتا ہے، جب سایہ قبلہ رخ یا صف رخ (قبلہ سے 90 ڈگری پر) پڑتا ہے-1976 میں فیصل مسجد قبلہ تعین کے لیے، وزارت مذہبی امور نے،سروے آف
8
پاکستان کے ساتھ راقم کو بھی بلایا۔سرویر کو پہلے روزتو قطبی ستارہ ملا ہی نہ،دوسرے روز، تھیوڈولایٹ کی مدد سے زمین پر قبلہ کا نشان
لگایا۔کہا گیا کہ ایک نشان لگایے، دوسرا چیک کرلیے۔راقم نے چیک کرنا اپنے ذمہ لیا- پہلے سے محسوب وقت پر زمین پر ساہلPlumb line لٹکادی۔ اس وقت سایہ قبلہ رخ پڑتا ہے۔گھٹنوں تک اونچی خود رو گھاس کے اوپر سے ، رسی تان کر ، ایک تختہ پر کاغذ کی شیٹ کو چسپاں کرکے ، اس کے اوپر سے، جہاں تک ڈوری کا سایہ نظر آتا تھا ،اس رخ ایک کھونٹی کے ساتھ رسی تان کر 100 فٹ تک آگے لے جا کر ایک دوسری کھونٹی زمین میں گاڑ دی۔ اور ساتھ ساتھ چونا ڈال دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا
فلکیات
9- راقم سول انجینئر ہے۔ فلکیات اپنا موضوع نہیں۔انجینئرنگ کالج آخری سال viva voce زبانی امتحان میں ممتحن نے پوچھا کہ راتآپ کسی گاوں پہنچے۔ وہاں شمال رخ کیسے معلوم کریں گے۔ مجھ سے پہلے ایک طالب علم کہہ چکے تھے کہ مسجد کا رخ دیکھ کر۔ اتقاق سے مجھے بھی وہی پوچھ لیا۔سوچا کہ جواب مختلف ہونا چاہیے۔ جواب دیا قبروں کا رخ دیکھ کر۔ قطبی ستارہ سے کبھی واسطہ نہ پڑا
تھا۔اپنے کو مفتی رشید احمد کا شاگرد کہتا ہوں۔ان سے 1968 میں پہلی بار ملاقات ہوی۔قبلہ کے بعد اوقات نماز میں لگ گیا۔ مفتی صاھب کی تحقیق بھی تب کی ہے۔انہیں بھی پہلی دفعہ صبح صادق کے بارہ میں جستجو کی سوجھی۔اور ساتھ راقم کے لیے خشت اول رکھ دی۔1971 ڈھاکہ میں تھا۔ وہاں Determination Of Qibla Direction And Islamic Timings
لکھی ۔ اس کے بارہ میں ڈاکٹر محمد الیاس (ملایشیا) نے اپنی تالیف(1984) میں لکھا کہ انگریزی میں اس موضوع پر غالبا یہ واحد
کتاب ہے
البیرونی
10۔ اپنے محکمہ میں انجینئر سید صمد حسین رضوی ماہر فلکیات کراچی میں تھے۔راقم تب ایر ہیڈ کوارٹر پشاور میں تھا-ان سے قبلہ معلوم کرنے کا پوچھا۔ بولے کہ اس کے لیے ایک دایرہ لگانا پڑتا ہے۔ اور ساتھ البیرونی کا طریقہ بذریعہ دایرہ بھیج دیا۔ اس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ تقریبی ہے۔ اور اس کی افادیت محدود ہے۔ یہ صرف ان مقامات کے لیے ہے جو کہ مکہ کے خط شمال سے بجانب مشرق، خط استوا کے اوپر واقع ہوں- مکہ سے شرقا جوں جوں فاصلہ بڑہتا جاتا ہے ، اس سے اخذ کردہ زاویہ سمت قبلہ میں انحراف بڑہتا جاتا ہے۔راقم نے خود دایرہ لگا کر طریقہ اخذ کیا۔ ٹرگنومیٹری(ریاضی کی ایک شاخ) سے اس کا تجزیہ کیا تو وہ بالکل درست تھا۔ اسی طرح راقم نے اوقات نماز کا دایرہ کا طریقہ وضع کیا۔ یہ دونوں احسن الفتاوی میں دیے گیے ہیں
9
کلید فلکیات
11-اوقات نماز، قبلہ اور قبلہ ٹایم میں مستعمل کلیات ٹایٹل کے اندر کی طرف صرف ایک صفحہ میں درج کردیے گیے ہیں۔ فلکیات جس کی شرعی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نصاب میں کتابیں شامل کرنا بے مقصد ہے-راقم کی ایک تازہ تالیف ، کتاب فلکیات میں سب کچھ ہے۔ لیکن تدریس کے لیے یہ بھی نہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں صحیفہ فلکیات،عملی فلکیات اور کلید فلکیات کے نام سے تین بروشر مرتب کیے ہیں۔ جو اس کتاب میں شامل کرلیے گیے ہیں
Road to Makkah سویے حرم
12-1978 میں مفتی رشید احمد کی خواہش کے مطابق سمت قبلہ کا ایک گراف جی ایچ کیو مین فریم کمپوٹر پر تیار کرکے بھیجا۔یہ احسن الفتاوی میں ٹکڑوں میں صفحہ 451-505 دیا گیا ہے۔1982 میں ڈیزاین ڈایریکٹوریٹ، انجینئر -ان- چیف برانچ میں ایک ڈرافٹس مینسے پاکستان، سعودی عرب اور گلوبل تین چارٹ تیار کروائے- 1985 میں کمپوٹر سینٹرجامعہ ملک سعود ریاض میں ایک فل سایز گلوبل چارٹ تیار کیا – جو جامعہ کے پریس سےچھپا۔ امریکی ریاست ہوای یونیورسٹی ،ہونولولو کی لایبریری کیٹیلاگ میں دیکھا گیا۔یہ چارٹ ، سویے حرم کے نام سے یہاں شامل کیا گیا ہے
رہنما کعبہ و قبلہ و شہر شماMBDA Guide
13- ایک عام آدمی کے لیے یہ دلچسپی کی بات ہے کہ حالت نماز میں ہما را منہ قبلہ کی کس دیوار پر پڑتا ہے۔ اسلام آباد سے کعبہ کی جانب منہ کریں تو ہماری نظر دایں جانب رکن عراقی (کونہ 2)کو چھوتی ہے اور بایں جانب ، حجر اسود (کونہ 1) سے آگے رکن یمانی (کونہ 4)کو چھوتی ہے۔نظر ترچھی جاتی ہے۔ چناں چہ زیادہ تر رکن عراقی اور حجر اسود کی درمیانی دیوار ہمارے سامنے ہوتی ہے اور کم تر، اسود اور یمانی کے درمیان والی دیوار- راقم نے اس کے لیے ایک سافٹ ویر تیار کیا ہے۔اس میں اسے( 412) سے تعبیر کیا ہے۔ دنیا کا کوی اور مقام، جس کے لیے اس کے الٹ، (214) لکھا ملے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں سے کعبہ کی طرٖ ف منہ کریں تو زیادہ تر حصہ( 41) دیوار کا اورکم تر( 12 ) دیوار کا
14-چند سال قبل سروے آف پاکستان جانے کا اتفاق ہوا-گیا تو تھا ادارہ سےسرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے ، کہ راقم کے پشاور کے لیے تیار کردہ نقشہ میں صبح صادق کا وقت ، سورج کے 15 ڈگری زیر افق کے مطابق ہے۔ وہ تو مل گیا۔ادارہ کی شایع کردہ سکول
اٹلس اٹھا کر دیکھی۔ اس میں بسوں کے کرایہ نامہ کی طرز پر پاکستان کے اہم مقامات کا بذریعہ سڑک فاصلہ دیا گیا تھا۔اس کے مطابق راقمنے سافٹ ویر تیار کیا ، جو ایک نہیں چار(4) مقداریں بتاتا ہے۔مقام 1 سے مقام 2 کی جانب دیکھیں تو ---
10
1. مقام 2 کی مساجد کے کون سے تین کونے سامنے ہوں گے(M)
2. مقام 1 سے مقام 2 کی بیرنگ (خط شمال سے گھڑی رخ زاویہ (B)
3. مقام 1 سے مقام 2 کی عمومی سمت NE,SE,SW,NW (Direction) (D)
4. مقام 1 اور 2 کے درمیان ہوای فاصلہ –Aerial distance- کلومیٹر(A)
ان چار مقداروں کو ایک ڈبہ کے چار ڈبوں میں یوں ترتیب دیا گیا ہے
مشورہ
15-سروے آف پاکستان اس خاکہ کو اپنی سکول اٹلس میں شامل کریں – اور ساتھ ایکسل سافٹ ویر کی کوڈنگ بھی۔ اس میں معلومات بھی ہیں اور بطور مشق، ایکسل شیٹ کا دلچسپ اطلاق۔راقم نے اپنے سافٹ ویر میں 12 مقامات کی گنجایش رکھی ہے۔ ایک دوسرا سافٹ ویر 25 مقامات کے لیے ہے۔ جو ڈویژن کی سطح کے 25 اضلاع کے لیے ہے
اسلام آباد 1-کعبہ سےاسلام آباد کی طرف منہ کریں
تو فیصل مسجد کا کونہ 3،4سامنے ہوگا- یہ تمام دنیا کی مساجد کے لیے ہے۔ کیوں کہ ان کی محراب والی دیوار کعبہ کی جانب ہوتی ہے-
کعبہ سے اسلام آباد کی بیرنگ 59 ڈگری ہے-سمت شمال مشرق، فاصلہ 3519 کلو میٹر
2- اسلام آ باد سے کعبہ کی جانب۔ کعبہ کا کونہ2،1،4 سامنے ہوگا۔کعبہ کی بیرنگ 256 ڈگری۔ سمت جنوب مغرب۔ فاصلہ 3،519 کلومیٹر
M B 256 214 کعبہ
D A SW 3519
ISB 34 59 M B
NE 3519 D A
kaba
دھوپ گھڑی بحریہ کالجSundial Bahria College
16-دھوپ گھڑی مسلمانوں کا قومی اثاثہ ہے۔قاہرہ کے میوزیم میں دھوپ گھڑی رکھی ہے۔ یہ نمازوں کے اوقات اور وقت عصر بتاتی تھی۔اس کا ڈیزاین محمود ابن حسن نوشوفی نے تیار کیا ۔ تاریخ جمادی اول ،1188 ہجری(جولای 1779) لکھا ہے۔سن 2014 میں COMNOR,NHQ نے راقم کا دھوپ گھڑی کا ڈیزاین ( تبدیلی کے ساتھ) بحریہ کالج نیول کمپلیکس کے باہر نصب کیا- 21 مارچ تا 23 ستمبر (سال میں 6 ماہ) وقت بتاتا ہے،جب سورج شمال کی طرف آجاتا ہے۔ یہ پری فیبریکیڈٹ میٹیڑیل کا بنا ہے۔ اس کے ڈایل کا جنوب کی طرف زمین کے ساتھ جھکاو ، اگر 56 ڈگری سے کم کرکے 30ڈگری کردیا جایے- تو تب یہ سردیوں
11
میں بھی وقت بتایے گی
17- اس سے بہتر ڈیزاین یہ ہے کہ Prefabricated Double Face دھوپ گھڑی ،دو طرفہ سڑک کے درمیان میڈین میں نصب کی جایے-اس کی دونوں طرف ڈایل ہو، جیسا کہ ذیل کے خاکہ میں بتایا گیا ہے- یہ سڑک( اسلام آباد کی دیگر سڑکوں کی طرح) ، بیت اللہ کی حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کی دیوار کے متوازی ہے- ہر دو کی بیرنگ(خط شمال سے گھڑی رخ
زاویہ) 238ڈگری ہے- God Given Bounty/Gift
پلے گراونڈ
چھڑی(Style)
کا سایہ ڈایل (پلیٹ) پر پڑتا ہے-جہاں آج ایک بجے پڑا، 365 دن وہیں پڑے گا۔شمالی فیس پر چھڑی کا سایہ گھڑی رخ حرکت کرتا ہے اورجنوبی فیس پر الٹ رخ- جہاں چاہیں اسے اٹھا کر رکھ لیں۔مثلا کسی نمایش
یا پارک میں
ڈایل کو سڑک کے متوازی رکھیں-حجر اسود-یمانی دیوار کے متوازی ہوگا
R
O
A
D
چھڑی
دھوپ گھڑی
دھوپ گھڑی
Double faced Sundial
On ground
غالبا اس طرح کی دھوپ گھڑی پاکستان میں کہیں اور نصب نہیں ہوی
Motto – Keep Pace With Me
جب تک سورج چاند رہے گا
یہ ڈایل ہمارا کام کرےگا
Conceived by Engr Malik Bashir Ahmad Bagvi, Today, On Friday, 24.06.1440
(01.03.2019)
R
O
A
D
موجودہ
ڈیزاین
شمال رخ
بحریہ کالج
سلاخ
ڈایل
مناسب یہ ہے کہ ایک ماڈل بنا کر منتخب مقام پر رکھ کر حتمی ڈیزان تیار کیا جایےPortable on pillar stand
12
اس کے بنانے کا ریاضی کا کلیہ تفصیل کے ساتھ ، راقم کی تالیف صحیفہ میراث لغت میراث کامل(2017) میں دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ لایبریری میں موجود ہے۔ یہاں کچھ اضافی امور ذکر کیے گیے ہیں- اس موضوع پر چار کتابیں آن لاین منگوایں، جن میں سے فقط ایک میں دھوپ گھڑی بنانے کا عمومی طریقہ دیا گیا ہے۔R.J.Rohar 1970/1996))۔لیکنمثال سے اس کی وضاحت نہیں کی گیی۔ اس کی اؤٹ پٹ تشریح طلب ہے-راقم نے اس کی وضاحت کی ہے۔یہ گھڑی ، فرش پر بنای جا سکتی ہے، یا کسی دیوار پر جس کا شرق و غرب(W-E) خط سے انحراف declination ہو، یا شمالا جنوبا (S-N)جھکاو -inclination ، یا دونوں ہوں، جیسا کہ ڈھلان دار چھت،نیول ہاوس اسلام آباد(سٹرکچرل ڈیزاین -بگوی)-راقم بذات خود ایک کتاب Sundial Theory And Practiceلکھ رہا ہے، جس میں کروی مثلث سے شروع کرکے ایک جامع طریقہ وضع کیا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی دو پبلشنگ کمپنیوں کو لکھ چکا ہوں، کہ ایسی کتاب آج تک کسی نے نہیں لکھی- اسلام آباد کا زاویہ سمت قبلہ 104 ڈگری ہے، سو اس کی ڈیکلی نیشن 14 ڈگری ہے۔دیوار کھڑی ہے،سو اس کی انکلی نیشن (از خط جنوب)90 ڈگری ہے-جس طور مسلم 1094 صبح صادق کی اساس ہے،اسی طور کروی مثلث، فلکیات میں کلیات کی اساس ہے
17-قدرت کا کرشمہ
آج بروز جمعہ المبارک،24 جمادی الثانی،1440 (01۔03۔2019)بعد از نماز فجر، ذکر و اذکار میں مصروف تھا۔ بحریہ کالج دھوپ گھڑی کا ایک نیا ڈیزاین ذہن میں آیا(اوپر کا خاکہ)-اس کا پس منظر یہ ہے کہ ادارہ نے راقم کے دیے ہویے ڈیزاین میں اپنے طور تبدیلی کرلی۔دھوپ گھڑی نصب کرنے کے بعد راقم کو اطلاع دی، کہ آکر دیکھیں۔ یہ فروری کے آخری ایام تھے۔ عین دوپہر کے وقت بھی چھڑی(سٹایل) کا سایہ اس پر نہ پڑتا تھا- سوچ میں پڑ گیا کہ اس میں بہتری کیوں کر ممکن ہے۔ کہ یہ سارا سال وقت بتایے۔ جو ڈیزاین راقم نے تب دیا تھا وہ جڑواں دھوپ گھڑی کا تھا-ایک پلیٹ کھڑی جنوب رخ اور دوسری پڑی۔تب تک راقم کا دھوپ گھڑی سے متعلق علم اتنا ہی تھا۔سوچتے سوچتے، یہ سوجھا، کہ اسی جگہ پلیٹ کا زمین کے ساتھ جھکاو، 56 ڈگری سے کم کرکے 30 ڈگری کر دیا جایے تو تب سردیوں میں بھی (22 ستمبر -20 مارچ) قبل اور بعد دوپہر وقت بتایے گی۔سوچتا رہا
اور اسی سوچ میں مذکورہ کتاب لکھی گیی- - اور اس کے محرک کمانڈر ایاز محمود تھے، جن کے مساجدتعمیر کرنے کے جذبہ نے انہیں
راقم کے قریب کردیا- ان سے ذکر کیا اور انہوں نے بات آگے Comnor—Cdr---تک پہنچا دی
رویت ہلال
18-ڈاکٹر کمال ابدالی کے سافٹ ویررویت ہلال سے ایک وقت میں فقط کسی ایک تاریخ کا امکان رویت معلوم ہوسکتا ہے-
12
فورٹ ران میں لکھے اس پروگرا م کو وسعت دے کر اسے اس قابل بنایا ہے کہ اب اس سے گلوبل چارٹ مرتب ہو سکتا ہے۔ نمونہ کے طور پر آیندہ ماہ رمضان کی آخری دو تاریخوں کا خاکہ دیا گیا ہے ۔سافٹ ویر ، دی گیی لنک سے ڈاون لوڈ کیا جا سکتا ہے
رمب لاین
19-امریکہ کی قدیم مساجد رمب لاین کے رخ بنی ہوی تھیں۔جہازران فنی وجوہات کی بنا پر اس پر سفر کرتے ہیں۔ سان فرانسسکو سے دایرہ عظیمہ کے رخ مکہ کا زاویہ از خط شمال، گھڑی رخ(بیرنگ) 19 ڈگری ہے(فاصلہ تا جدہ4،163 کلومیٹر)۔ جب کہ
رمب لاین کے رخ83 ڈگری (فاصلہ 15,663 کلومیٹر)ہے-یوں ہر دو میں 64 ڈگری کا تفاوت ہے۔ جب کہ 45 ڈگری سے زاید تفاوت شرعا جایز نہیں-ڈاکٹر کمال ابدالی کو امریکہ کی کسی مسجد کا قبلہ تعین کرنے کے لیے چنا، کہ ریاضی دان تھے۔وہ پریشان کہ رمب لاین بتاوں، کہ دایرہ عظیمہ۔تذبذب میں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی آیا۔اپنے سسر کے گھر آپ کی کتابفن تخریج سمت قبلہ اوقات اسلامی-Determination Of Direction Of Qibla And Islamic Timings
دیکھی۔ اسے پڑھ کر اتنی خوشی ہوی کہ مبالغہ سمجھیں گے۔رویداد احسن الفتاوی میں ہے۔علم تو انہیں ہوگا دایرہ عظیمہ کا، لیکن تایدکی ضرورت تھی۔ شیخ اشرف بک سیلرز( ناشر)، کے ہاں اس کتاب کا ایڈیشن ختم ہو چکا تھا، ان سے کوی صاحب 100 نسخے خاص
طور پر چھپوا کر امریکہ لے گیے ، کہ ایک نمایش میں اسے رکھنا ہے- اس کی پی ڈی ایف وہاں کے کسی ناشر کی ویب سایٹ پر دیکھی
گیی۔اور سافٹ کاپی ایک دوسری سایٹ میں-کمال ابدالی کے سسر ایم-ای-ایس ملیر کینٹ میں تھے، 1958 میں۔جہاں محکمہ میں میری پہلی پوسٹنگ تھی- گیریزن انجینئر، میجر (بریگیڈیر) آفتاب احمد نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا کہ میں، ایس ایمامام کو چارج دے رہا ہوں، جو صحیح معنی میں امام ہیں
20-راولپنڈی نژاد ، فزکس گریجویٹ آیے اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلیں۔ہمارے ساتھ رمب لااین کا دفاع کریں-رمب لاین کا قصہ بروجی روشنی کا سا ہے۔انجانے میں دونوں منظر پر آیے۔رمب لاین تو چل بسی،بروجی روشنی تیار ہے، راہ ڈھونڈ رہی ہے
میراث
21-راقم نے میراث پر جو کام کیا ہے۔ وہ دو طرح کا ہے
1. دو صفحات پر مشتمل ضابطہ میراث شرعی جامع۔ اس میں ہر مسلہ 24 سے بنایا گیا ہے۔جامع اس لیے کہ یہ سراجی کا خلاصہ ہے۔ وہ بھی جامع، یہ بھی جامع
14
(2) لغت میراث کامل، 20 ملین مسایل میراث کا حل ہندسوں میں۔ کامل اس لیے کہ کوی مسلہ اس سے باہر نہیں
22-سال گزشتہ عبد الولی خاں یونیورسٹی مردان، ڈین علوم اسلامی ، ڈاکٹر نیاز محمد کا فون آیا کہ ہمارے ہاں ایم فل طالبہ میراث پر مقالہ لکھ رہی ہیں۔ اس میں مرکزی حیثیت آپ کو دی گیی ہے۔راقم نے کہا کہ طالبہ کا مقالہ منظور نہ کیا جاے، جب تک وہ 100 میں سے 100 نمبر لے کر سند میراث ہم سے حاصل نہیں کرلیتیں۔ طالبہ کی حاصل کردہ سند کا عکس اس کتاب میں دیا گیا ہے- سند نمبر76،832 ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ 1996 سے لے کر اب تک کتنے افراد اس معیار کی امتیازی سند حاصل کر چکے ہیں۔پھر وہی بات کہ جب علم نہ ہو ،تو آدمی معذور ہے۔ جب اس ارزاں طریقہ کا علم ہو جایے تو پھر طلبا کو اس سے محروم رکھنا چہ معنی دارد
مشورہ
23- بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور علامہ قبال یونیورسٹی میں بھی اسی جذبہ سے کا کام لیتے ہوہے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ کے ساتھ اس طرح کی سند جزو لازم قرار دی جایے۔اس کا فایدہ یہ ہوگا کہ جامعہ سے فارغ، ماہر میراث ہوگا۔ اس کے لیے ملٹی
میڈیا کے ذریعہ فقط ایک لیکچر کا اہتمام کیا جایے۔ ای میل کے ذریعہ ضابطہ میراث کے دو (2) اوراق اور راقم کا میراث سافٹ ویر
ایکسل پیشگی بھیج دیے جایں۔ اگلے روز ان کو اس کا طریقہ استعمال سمجھا دیا جایے۔ سارا سیمیسٹر میراث کے شرعی پہلو پر صرف کیا
جایے-میراث کا مضمون اگر داخل نصاب نہیں، تو اصل مقصد تو اس سے حاصل ہوگیا۔ دعوی اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی پیچھے کیوں رہیں۔کورس کے دوران ایک گپ شپ ڈے منا لیں
اللہ تعالی اسے شرف قبولیت بخشے۔ آمین
انجینئر ملک بشیر احمد بگوی، اسلام آباد
چیف انجینئر ڈیزائین ڈایرکٹوریٹ، انجینئر۔ان۔چیٖف برانچ(جی۔ایسچ۔کیو)راولپنڈی(1995)
انجینئرنگ ایڈوائزر، رائل سعودی ایئر فورس،ریاض(1982۔85)
2- مقدمہ
1۔ راقم نےموقر ادارہ کی گرانقدر تالیف موسومہ تقویم تاریخی مرتبہ عبد القدوس ہاشمی، جس کا دوسرا ایڈیشن ابختم ہو چکا ہے،
15
کی افادیت کے پیش نظر اسے ایک نیے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس میں واقعات کو تقویم سے جدا کرکے اس کی کمپوزنگ کی ہے۔تو جداول سمٹ کر 75 صفحات پر آ گئے ہیں
2۔جہاں تک تقویم کا تعلق ہے، یہ جرمن سکالر Wustenfed کی تالیف کی نقل ہے ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ (مرحوم) نے لکھا ہے کہ انگریزی اور اردو میں یہ تقویم ہایے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل ہیں۔اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ ان میں ہرقمری ماہ کے دنوں کی تعداد متعین کردی گئی ہے۔چنانچہ ماہ رمضان ہمیشہ 30 ایام کا لیا گیا ہے۔اور حجہ الوداع بروز ہفتہ بتایا گیا ہے۔فاضل سکالر نے موخر الذکر غلطی کا
ازالہ کرنے کی خاطر بنیادی ضابطہ سے انحراف کرتے ہویے ہفتہ کو جمعہ سے تو بدل دیا۔ لیکن اس سے ماہ ذی الحج 31 دن کا ہو گیا۔نیز اس میں کوئی قمری ماہ 29 دن کا ہے اور کوئی 59 دن کا
3۔ راقم نے ڈاکٹر خالد شوکت (website moonsighting.com) کے فنی اشتراک سے 1512 سالہ ہجری تقویم موسومہ مکہ ہجری کیلنڈر، مرتب کی ہے۔ جس میں سن 0001 تا 1400 مدینہ منورہ کی رویت کو اساس بنا کر قمری مہینوں کے ایام درج کیے ہیں۔ جب کہ 401 تا 1512 سن ہجری کے لیے اختلاف مطالع کو نظر انداز کرکے عالمی روئت کا اعتبار کیا ہے۔اس طرح یہ وسٹنفیلڈ کی تقویم کا ایک بدل ہے
4۔راقم کی نظر سے ایسی کوئی تالیف نہیں گزری جس میں تقویم تاریخی کی طرح واقعات اور تقویم کو جمع کردیا گیا ہو۔اس لحاظ سے یہ ایک
منفرد تالیف ہے جو کہ4,000 کی تعداد میں شایع ہوئی۔ راقم کی زیر نظر تالیٖف میں واقعات تو ہو بہو تقویم تاریخی سے لیے گیے ہیں۔
جب کہ وسٹن فیڈ کی تقویم کو رویت پر مبنی تقویم سے بدل دیا ہے۔اب پوری کتاب سمٹ کر 150 صفحات میں آ گئی ہے۔ جب کہ مطبوعہ کتاب (طبع دوم) 377 صفحات پر مشتمل ہے
5۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد جنید ندوی نے ادارہ ہذا کے ریسرچ سکالر کی حیثیت سے چند سال پہلے واقعات کو عالمگیر افادیت کی خاطرانگریزی زبان میں مرتب کیا تھا ۔ آی آر آی ریکارڈ سے کمپوٹر پرنٹ نکلوایا۔ مجوزہ تالیف1,500 صفحات پر مشتمل تھی۔ واقعات کو تقویم سے الگ کرنے سے یہ سمٹ کر 375 صفحات میں آگیی ہے
6- راقم نے ادارہ تحقیقات کو مشورہ دیا تھا، کہ تقویم ہاشمی کو آیندہ شایع نہ کیا جایے، جس کے بارہ میں ڈاکٹر ضیا الدین لاہوری نے تحری طور پر ادارہ کو مطلع کیا تھا کہ اس میں ڈھیروں غلطیاں ہیں۔یہ دوسری وجہ ہے کہ ادارہ نے اس تقویم کو تیسری بار شایع کرنے کاارادہ ترک دیا۔ اچھا کیا۔ الحمد للہ سکالرز کی مشترکہ کوشش رایگاں نہیں گیی۔ ایک نہیں تین تقویم ہاے ،336 صفحات کی ایک جلد میں بر سر عام آرہی ہے-
ان میں تقویم ہاشمی اردو میں ، تقویم جنیدی انگریزی میں، جب کہ تقویم شوکت ایک تیسری زبان --- ہندسوں میں ہے۔زبان دانی سے آزاد، ہندسے پہنچانتا ہو ۔تو بھرپور فایدہ اٹھایا جا سکتا ہے
16
7۔چار ماہ قبل کاغذ خرید کر پریس میں رکھا- پر واپس اٹھا لیا-کہ اللہ کو ایک بھلے کام کے لیے اسے موخر کرنا منظور تھا۔ اس دوران صحیفہ فلکیات،عملی فلکیات اور کلید فلکیات مرتب ہو گیں۔ موخر الذکر دو کواس کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے
دلچسپ داستاں
8-تقویم ہاشمی کا تجزیہ کیا تو فنی غلطیوں سے بھر پور۔ کوی مہینہ 59 دن کا، کوی 20 دن کا۔راقم نے فورٹ ران میں ایک پروگرام لکھا۔ اس میں وسٹن فیڈ کلیہ کی اساس پر 1500 سال کی تقویم تیار کرلی۔سینر افسر مجاز کے پاس گیا، کہ اسے ٹھیک کر دیتا ہوں۔
انہیں ناگوار گزرا۔ بولے میرا وقت ضایع نہ کریں۔کہا ریمورٹ کنٹرول سے تقویم تیار کرکے سافٹ کاپی، آپ کے حوالہ کر دوں گا۔یہ بھی قبول نہ کیا۔ سوچا کہ اس کی تو اساس ہی وسٹن فیڈ کے کلیہ پر ہے، جس میں رمضان ہمیشہ 30 دن کا لیا گیا ہے، اور حجہ الوداع بروز ہفتہ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وسٹن فیڈ کو علم نہ ہو۔ چنا نچہ راقم کی درخواست پر ڈاکٹر خالد شوکت نے امکان رویت کی بنیاد پر 1512 سالہ تقویم تیار کرکے بھیج دی۔ جو2004 میں 5،000 کی تعداد میں مکہ ہجری کیلنڈر کے نام سے پاکٹ سایز میں
کی طرف سے چھپی) پاکٹ سایز( - اب یہ اس کتاب کا حصہ ہے
9-انچارج نسخہ جات کے پا س گیا، کہ ڈاکٹر جنید کی تقویم کا مسودہ آپ کے پاس ہے۔مجھے مل جایے، تو شاید کوی مفید مشورہ دے سکوں۔ ٹال دیا، کہ ہے ہی نہیں
10۔جسٹس فدا محمد خاں، سینر جج فیڈرل شریعت کورٹ ،لایبریری میں کمپوٹر پاس بیٹھے، راقم کے پا س آیے، 1935 کا جمعہ،رمضان کا مہینہ، انگریزی تاریخ کے مطابق ہجری سن و تاریخ پوچھی۔تقویم شوکت دیکھ کر بتا دی۔کیس مضبوط کرنے کے لیے،ڈی جی -آی آر آی کے پاس لے گیا۔بولے پروٹوکول کے بغیر جاتا نہیں، پر چلتا ہوں۔انچارج کو بلایا، بولے، اب گاڑی رکے گی نہیں۔ بعد میں کہا کہ جنید کی تقویم ادارہ کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔حالاں کہ ادارہ کے ریسرچ سکالر کو اس پر مامور کیا گیا۔سال بھر کی تنخواہ دی- حسب معمول وقتا فوقتا اس پر اجتماعی طور پر غور بھی ہوتا رہا۔سکالرز کے اسما گرامی، Acknowledgement کے عنوان کے تحت شامل اشاعت ہیں
11- 11- ڈاکٹر جنید ندوی کے پاس گیا، کہ آپ کی تالیف دیکھنا چاہتا ہوں۔ خدشہ ہوا کہ سرقہ نہ ہو جایے۔ بولے،کس نے بتایا۔
19
جن پر شبہ تھا، ان کے پاس لے گیے۔ انکار کیا کرتے۔ چوری کی نیت سے گیا بھی نہ تھا۔پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔تب چھپتی تو رنگ کچھ اور ہوتا، ادارہ کی بندھنوں کے ساتھ۔ اب بندہ آزاد، قلم آزاد اور ناشر بھی خود
12۔معمول سے ہٹ کر، نایب قاصد کو انچارج پبلی کیشنز کے پاس بھیج کر اجازت چاہی۔ باہر سن رہا تھا۔ بولے
- سفارش سے اندر گیا۔ تقویم کی بات چھیڑی-۔ بولے، نوک پلک ٹھیک کر رہے ہیں،I don’t want to see him
چھپنے والی ہے۔ پاس بیٹھے ایک سکالر سے بولے، میں نے انہیں بلایا ہے۔اگلے روز میٹھے انداز میں انہیں شکوہ کی چٹھی لکھی۔بات اوپر پہنچی۔ کرسی سےاتر گیے
13-بندہ کے شیخ ،شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری فرمایا کرتے تھے- خطبہ جمعہ میں جو بیان کرتا ہوں۔ذہن میں کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی جو دل میں ڈال دیتے ہیں، وہ لکھ لیتا ہوں۔ اس القا کی ایک جھلک یہاں دیکھی۔سوتا ہوں تو ذہن میں کچھ نہیں ہوتا۔ اٹھتا ہوں، تو باتیں ذہن میں ابھر آتی ہیں۔لکھ لیتا ہوں
14-کتاب تیار، پر چھپوانے کا معقول اہتمام نظر نہ آیا ۔اللہ نے کام لینا تھا، افغانستان نژاد مولانا نصراللہ منصور سے۔ انہوں نے تقویم ہاشمی میں 1965 تا2019 واقعات شامل کردیے۔ یہ کام کسی عالم کا تھا۔ عالم ہی کے ہاتھوں انجام پایا -راقم نے تو مسودہ میں نشان دہی کردی تھی
کہ فلاں فلاں جگہ قلمی مطبوعہ نسخہ میں واضح نہیں۔ اصل کتاب لایبریری سے لے کر درست کر لیا جایے
فطرت کے تقاضوں کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرای یا مرد کوہستانی
اللہ بھلا کرے ڈاکٹر سہیل حسن،ڈایریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی کا۔ان کے دور میں ڈاکٹرجنید کی کتاب کا کمپوٹر پرنٹ
ریکارڈ سے راقم کو دلوا دیا۔ جسے 1،500 صفحات سے کم کرکے 375 صفحات میں سمو دیا گیا ہے
15۔ڈاکٹر سہیل حسن کے ہاتھوں ایک دوسرا کارنامہ یہ انجام پایا، کہ نقشہ 100 سالہ اوقات نمازو قبلہ ٹایم ان کے دور میں چھپا۔
ملکی اور عالمی سطح کے آٹھ سکالرز ، جن میں صدر جامعہ بھی تھے، سے توثیق کروالی- انچارج پبلی کیشنز 10 دن کی چھٹی پر تھے۔ مارکیٹ سے نقشہ اوقات نماز کی فلم تیار کروا کر لادی- اتفاق سے ، اتفاقیہ چھٹی پر گیے افسر، اسی دوران کسی کام سے واپس آیے،فلم دیکھی تو،مجبور،ڈی جی کی منظوری سے، ادارہ کے خرچ پر- خاموش رہے۔ادارہ کے پریس میں 1000 کی تعداد میں چھپ گیا۔چہ مگویاں شروع ہو گییں،مشہور ہو گیا ، کہ نقشہ ادارہ نے شایع نہیں کیا، بگوی نے کہیں سے چھپوا کر ادارہ کا نام لکھ دیا،یہ 2014 کی بات ہے
16-سال گزشتہ پھر ایک لہر اٹھی۔بگوی کو سخت حکم امتناعی مل گیا، کہ خبر دار آیندہ ادارہ تحقیقات اسلامی یا یونیورسٹی کے نام سے یہ
17
نقشہ شایع نہ کرنا۔ اگلے روز جنگ اخبار کا تراشہ باضابطہ وصولی کے لیے آگیا۔ کہ اسلام آباد ہایی کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے مطابق، پی ایچ ڈی سے کم کوی اسلامی امور پر بات نہیں کر سکتا۔راقم کا دعوی علم کا ہے ہی نہیں۔انجینئر ہے -تب تک ہزاروں کی تعداد میں یہ راقم چھپوا چکا تھا ۔4،000 کی تعداد میں اس حکم امتناعی سے چند روز قبل پاکٹ ڈایری کی شکل میں پھر چھپا-ادارہ کے مطبوعہ نقشہ میں لکھ (لکھوا ) دیا گیا تھا ۔ اذن عام،من و عن شایع کرنے کی اجازت
قصہ شیلڈ کا ----جنگ اخبار کا تراشہ
ان کے ہاتھ میں تھمانا چاہیے تھا،جن سے امام ابو حنیفہ ہال میں لیکچر دلوایا اور شیلڈ دے کر رخصت کیا تھا۔ علمی بات کی ان سے توقع ہی کیا تھی۔ جن کی دیانت کا یہ حال کہ کہیں کہ فتاوی دھوکہ سے لیے گیے ہیں-ثبوت مانگا تو بولے کہ یہ جزوی باتیں ہیں، ان کو چھوڑ دیں۔ مکرر کہا تو بولے کہ آپ کو بات کرنے کے لایق نہیں سمجھتا
حقیقت یہ ہے کہ وہ اچھے بھلے سکالرز کو کنفیوز کرکے چلے گیے۔حتی کے معنی بدلنے سے تورہے،
گاڑی کا پہیہ الٹا گھما کر واپس ہویے
17- ایک قدم آگے بڑہتے ہویے، راقم نے صدر جامعہ کو چٹھی لکھی کہ وزارت مذہبی امور کو کہیں کہ جامعہ نے علمی اساس پر اس نقشہ کو شایع کیا ہے، اب فنی لحاظ سے محکمہ موسمیات سے اس کی توثیق کروا کر اعلان عام کردیا جایے- اور صدر جامعہ بطور پیٹرن انچیف ، ام المساجد پاکستانفیصل مسجد، میں اس کے مطابق اذان فجربذات خود کہہ کر ایک صدی پرمحیط ایک سنگین غلطی کا خاتمہ کے لیے عوام کی حوصلہ افزای فرمایں
لطیفہ
18-لایبریری میں ہر آنے والا ریڈر کہلاتا ہے۔راقم نے دیوبند خط لکھا تو اپنے نام کے ساتھ ریڈر محمد حمید اللہ لایبریری لکھا کہ جواب جلد ملے۔ڈایری شایع کی تو اس پر بھی۔کہا یہ کیوں۔وجہ بتای کہ یہاں ریڈر کی پوسٹ ہوا کرتی تھی۔کہا کہ اگر نایب قاصد لکھتا تو جرم ہوتا۔میں نے تو لکھا کہ ادارہ کی شان اونچی ہو، کہ جس کا ایک عام قاری یہاں بیٹھ کر یہ کام کرگیا ، اس کے سکالرز کا کیا مقام ہوگا
19- پہیہ الٹا پھر گیا-یونیورسٹی میں لجنہ تشکیل کی گیی، کہ اس نقشہ کی اساس (مسلم 1094) کی تحقیق کی جایے۔ راقم نے ریس
لجنہ سے ملاقات کرکے، وضاحت کی کہ یہ نقشہ ،آٹھ سکالرز، بشمول صدر جامعہ کی تحقیق پر مبنی ہے، جس میں مسلم 1094 لفظ
19
حتی بمعنی غایہ (جوڑ) پر سب نے اتفاق کیا ہے۔بولے کہ میں نے تو صدر کو کہہ دیا ہے، کہ یہ میرے بس کی بات نہیں
20- لیکن بعد ازاں، ایک شخص کو، امام ابو حنیفہ ھال میں لیکچر کے لیے بلایا۔ ایسا شخص ، جو عالم نہ فاضل نہ منشی نہ سکالر۔تشہیر عام ہو گیی کہ معروف مذہبی سکالر تشریف لا رہے ہیں۔کسی نے گھبراہٹ میں کہا ، وہ آرہے ہیں۔ راقم بولا، آپ حتی بمعنی غایہ پر قایم ہیں
نا ؟ بولے ہاں۔ کہا آنے دیں
21- سامعین - یونیورسٹی سکالرز کا منتخب مجمع، جس میں علوم اسلامیہ سےمتعلق تمام شعبہ جات- کلیہشریعہ،اصول الدین،لغت
عربیہ کے سکالرز موجود۔ کسی نے بھی وہاں یہ سوال نہ اٹھایا کہ، ہمارے نزدیک مسلم 1094 میں حتی بمعنی غایہ ہے، آپ یہاں اس کے کیا معنی لیتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی نکتہ تھا ، جس کی طرف موصوف آیے ہی نہیں
22- اس سے اگلے روز باد سموم کی ایک لہر اٹھی-لجنہ نے یونیورسٹی ویب سایٹ سے راقم کے ایکسل میں لکھے دو سافٹ ویر -میراث، قبلہ ٹایماتروا دیے۔کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ نقشہ غلط ہے۔جو یہ ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ صبح صادق 12 ڈگری زیر افق پر ہوتی ہے، بعض نے 18 کہی ہے۔ ان کی اوسط 15 ڈگری (ادارہ کا نقشہ) غلط، پرا نا( 18 ڈگری پر بنی ) نقشہدرست-صھیحمسلم 1094 پر کوی تبصرہ کیا ، نہ شامی کے تین ڈگری فرق بین فجرین کا۔بھلا سافٹ ویر میراث کا ، نقشہ اوقات نماز سے کیا
تعلق۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلام نے تو اسے نصف العلم کہا ہے۔ راقم کی نصف صدی کی محنت اس میں جذب ہے- میراث کا
سافٹ ویر بھی اس کی زد میں آگیا۔نوٹس آگیا کہ ، آیندہ ایسا کوی مواد شایع کیا تو سخت مواخذہ ہوگا
23-قبلہ تو ہمارا جزو ایمان ہے۔ اس کے بغیر تو ہماری نماز ہی نہیں ہوتی، اس کے سافٹ ویر کو جامعہ کی سایٹ سے اتاروانے کی کیوں کر ہمت ہوی۔ انصاف تو یہ تھا ، اور راقم نے کہا بھی،کہ ڈاکٹر مفتی شوکت علی کو بھی بلوا لیں،جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کے لیے صبح صادق پر مقالہ لکھ چکے ہیں۔اور بقول ان کے ، اس پر 2،000 صفحات لکھ چکے ہیں- چوں کفر از کعبہ خیزد، کجا ماند مسلمانی
24- راقم نے گزارش کی، کہ ان آٹھ سکالرز کی تحقیق اگر غلط ہے، تو ادارہ اپنی تحقیق کو منظر عام پر لایے تاکہ آیندہ اس کے مطابق نقشہ شایع کیا جایے ۔ اس کا جواب تحریری طور پر یوں ملا، کہ تحقیقی کام کو شایع کرنے کا، ادارہ کا اپنا ایک ضابطہ ہے، اشاعت میں اس کا لحاظ نہ رکھا گیا ۔اس لیے یہ ادارہ کا نقشہ نہیں،اس سے نقشہ تو غلط نہ ہوا۔رہی بات ضابطہ سےہٹنے کی، سکالرز سے دوبارہ پوچھ کر تسلی کر لی جاتی۔ رسمی تسامح تو محکموں میں عام بات ہے۔ اس کا راستہ بھی معلوم ہے-پوری کرناFormality
مناسب اقدام یہ تھا کہ لجنہ اپنے اعلانیہ (فتوی نہیں)،میںایک بے سندبات( 12،15،18 )کہنے کے بجایے،
20
(1) صدر کو اپنی سفارشات بھیج دیتی کہمسلم 1094 متفق علیہ اور اس میں حتی بمعنی غایہ پر بھی اتفاق۔ اس کا علمی پہلو ہم نے
پرکھ لیا ہے - لجنہ اس پر متفق ہے-اب اگلے مرحلہ پر وزارت مذہبی امور کو کہا جایے، کہ محکمہ موسمیات سے اس کے فنی پہلو
کی جانچ کروا لی جایے- بصورت دیگر
(2)اعتذار کے ساتھ جامعہ کی طرف سے اخبارات میں اعلان عام شایع کروا دیا جاتا ، کہ جامعہ کی سطح پر تشکیل کردہ لجنہ کی تحقیق کے مطابق،ادارہ تحقیقات اسلامی کا نقشہ 100 سالہ اوقات نماز و قبلہ ٹایم ، جو مسلم 1094 پر مبنی ہے، غلط ہے
، کیوں کہ مسلم 1094 میں لفظ حتی بمعنی غایہ (جوڑ) نہیں۔ اس پر عمل کرکے اپنی نماز فجر ضایع نہ کریں
25۔ راقم نے تو اساساس پر فنی تعاون فراہہم کیا تھا۔جو اہل فن کا کام ہے۔ دعوی تو کچھ نہیں، پر راقم نے 1971 سے لے کر اب تک فلکیات پر جو کام کیا ہے، اور عالمی سطح پر اس کی جو پذیرا یی ہوی ہے،اس کا اوپرتذکرہ ہوچکا۔ بہر حال یہ ایک فرد کی کاوش ہے، لہذا عام و خاص کومطمین کرنے کی خاطر،قومی سطح کے ادارہ موسمیات سے اس نقشہ کی توثیق کی تجویز پیش کی تھی
لطیفہ
26- راقم، آی آر آی کی جانب سے جامعہ کے مدخل کے پاس پہنچا۔ وہاں صدر جامعہ ڈاکٹر حامد حسن(مصری) اور ڈاکٹر محمود غازی کھڑے تھے۔ راقم کو دیکھ کر بولے ، ابھی قیامت آنے کے کوی آثار نہیں۔ بگوی نے میراث اتنی آسان کر دی ہے۔انہوں نے راقم
کی تازہ تالیف السراجی فی ثوب جدید (نیے روپ میں سراجی-A Modern Version Of Siraji) شریعہ اکیڈمی کی جانب سے شایع کرنے پروگرام بنایا۔ حسب ضابطہ ، جایزہ کے لیے بھیج دیا۔ وہ گیے، تو دن بھی گیے-اب تو راقم کا دو صفحات پر مبنی ضابطہ میراث شرعی جامع ، کوی شایع کرنے کو تیار نہیں، کہ جگنو آگیا تو سورج کی روشنی مدھم پڑ جایے گی
27-ڈی جی شریعہ (سوڈانی) کی اجازت سے بک بینک میں رکھے 40 نسخہ جات فقہ المواریث صابونی ٹایٹل کے اندر کی جانب اپنے دو صفحات (ایک ورق) کو چسپاں کردیا۔ کتاب خارج از نصاب، کہ نہ ہو بانس، نہ بجے بانسری۔شیخ صابونی کو لکھا کہ ہر مسلہ 24 سے حل کرکے اپنی کتاب میں شامل کرلیں- اس کی افادیت بڑھ جاہے گی۔ تب وہ ام القری سے جا چکے تھے- صحیفہ میراث(2017) میں صابونی کی کتاب میںدیے گیے جملہ 50 مسایل میراث، لغت کے حوالہ سے حل کرکے، اس میں شامل کرلیے گیے ہیں
(صفحہ 127-128)
28- مولانا نصراللہ منصور نے راقم کی تالیف، بغدادی قاعدہ میراث کا پشتو اور اردو ترجمہ اڈیشن متعدد بار اپنے طور شایع کیا-
21
اورخود بھی پشتو اور فارسی میں تین کتابیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی کوی ایک تحصیل بھی ایسی نہیں، جہاں کسی نےاس طرز جدید سے میراث نہ پڑہی ہو۔اسلامی یونیواسٹی ، اسلام آباد سے گولڈ میڈلسٹ چند سال ہویے، آیے کہ جب یہاں تھا تو
قدر نہ تھی۔ اب افغانستان سے خاص آپ کا طریقہ سیکھنے آیا ہوں۔مدرسہ چلا رہا ہوں- کاش کہ یہ جذبہ بغل میں جامعہ اسلامیہ میں
ہوتا-راقم نے شرح سراجی (400 صفحات) کی سافٹ کاپی , پی ڈی ایف انٹر نیٹ پر رکھ دی ہے- اس کا اردو ترجمہ مولانا مفتی نظا م الدین،دارالعلوم دیوبند کا ہے اور انگریزی ترجمہ،پروفیسر ڈاکٹر احد اللہ بیگ، الہ آباد یونیورسٹی کا ہے
29- ہر دو سافٹ ویر دس سال قبل، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی،انچارج فقہ یونٹ ، آی آر آی کی وساطت سے، صدر جامعہ کی منظوری کے ساتھ طلبا، عوام الناس کے نفع کے لیے،لانچ کیے گیے تھے-صدر جامعہ نے صرف یہ وضاحت چاہی تھی کہ آیا یہ فری ہے۔
جو ظاہر ہے۔ دین بیچا نہیں جاتا-قل ما اریدمنکم من جزا ولا شکورا(القرآن)
30- اللہ تعالی نے ایک جذبہ دیا تھا۔سیکٹر ای سیون صبح سویرے گھر سے نکلتا،ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے پاس سے جامعہ کی دیوار پھلانگ کر لایبریری پہنچ جاتا۔ جہاں نایب قاصد صفای کے لیے وقت معینہ سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ چکے ہوتے۔ تب کبھی صبح آٹھ سے شام آٹھ بجے تک لایبریری میں بیٹھ کر کام کرتا-کھانا سامنے، کمپوٹر پر بیٹھا ۔ کہتا ہوں کہ ، کھانا میں نہیں ، تو کوی اور کھا لے گا۔یہ کام مجھے ہی کرنا ہے۔ رہ گیا، تو گیا
ان شاء اللہ ! اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے لنک عنقریب لگادیا جائے گا۔
ان شاء اللہ ! اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے لنک عنقریب لگادیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment