روزہ اور نمازوں میں احتیاط کا راستہ:
صبح صادق کب ہوتی ہے؟ جب سورج ۱۸ درجہ زیر افق ہوتا ہے یا جب ۱۵ درجہ زیر افق ہوتا ہے؟ اس میں علماء فلکیات کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک صبح صادق ۱۸ درجہ پر ہوتی ہے، ہمارے ملک میں اوقات نماز کے نقشے عموماً اسی قول کے مطابق بنائے جاتے ہیں، جبکہ بعض فلکیین کے نزدیک صبح صادق ۱۵ درجہ پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ میرے استاذ و شیخ فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰــــــجن کو اللہ تعالیٰ نے اس فن میں خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا اور جن کی مہارت کا بڑے بڑے اہل فن نے اعتراف کیا ہیــــــ نے ۱۵ درجہ والے قول کو ترجیح دی ہے اور احسن الفتاویٰ جلد دوم میں اپنا موقف مفصل و مدلل بیان فرمایا ہے۔
ان دو اقوال کے درمیان موسم اور جگہ کے اعتبار سے ۱۰ منٹ سے ۲۰ منٹ تک کا فرق ہوتا ہے۔ ۱۸ درجہ کے اعتبار سے صبح صادق جلد ہوجاتی ہے اور ۱۵ کے اعتبار سے ذرا دیر سے ہوتی ہے۔
ہمیں استفتاء ات اور بعض نجی خطوط کی صورت میں ایسی تحریرات موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں بعض حضرات شدت سے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حضرت فقیہ العصر مفتی اعظم مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق پندرہ درجہ زیرِ افق پر صبح صادق کے اوقات پر مشتمل نقشۂ اوقاتِ نماز تیار کرکے اس کی عام اشاعت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مطابق روزہ بند کرنے اور نماز فجر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
صبح صادق کب ہوتی ہے؟ جب سورج ۱۸ درجہ زیر افق ہوتا ہے یا جب ۱۵ درجہ زیر افق ہوتا ہے؟ اس میں علماء فلکیات کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک صبح صادق ۱۸ درجہ پر ہوتی ہے، ہمارے ملک میں اوقات نماز کے نقشے عموماً اسی قول کے مطابق بنائے جاتے ہیں، جبکہ بعض فلکیین کے نزدیک صبح صادق ۱۵ درجہ پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ میرے استاذ و شیخ فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰــــــجن کو اللہ تعالیٰ نے اس فن میں خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا اور جن کی مہارت کا بڑے بڑے اہل فن نے اعتراف کیا ہیــــــ نے ۱۵ درجہ والے قول کو ترجیح دی ہے اور احسن الفتاویٰ جلد دوم میں اپنا موقف مفصل و مدلل بیان فرمایا ہے۔
ان دو اقوال کے درمیان موسم اور جگہ کے اعتبار سے ۱۰ منٹ سے ۲۰ منٹ تک کا فرق ہوتا ہے۔ ۱۸ درجہ کے اعتبار سے صبح صادق جلد ہوجاتی ہے اور ۱۵ کے اعتبار سے ذرا دیر سے ہوتی ہے۔
ہمیں استفتاء ات اور بعض نجی خطوط کی صورت میں ایسی تحریرات موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں بعض حضرات شدت سے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حضرت فقیہ العصر مفتی اعظم مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق پندرہ درجہ زیرِ افق پر صبح صادق کے اوقات پر مشتمل نقشۂ اوقاتِ نماز تیار کرکے اس کی عام اشاعت کرنا چاہتے ہیں اور اس کے مطابق روزہ بند کرنے اور نماز فجر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
دوسری طرف دوسرے فریق کے بعض لوگ ۱۸ درجہ پر روزہ بند کرنے اور اسی کے مطابق نماز فجر پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں اور نماز فجر کے لیے ۱۵ درجہ کا انتظار کرنا گوارا نہیں کرتے اور ائمہ کرام سے الجھتے ہیں۔ بعض جگہ کسی ایک فریق کے بے جااصرار کی بناء پر اچھی خاصی کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے اور رمضان جیسا مقدس مہینہ یکسوئی، دلجمعی، خشوع و خضوع سے عبادت کرنے اور دوسروں کی خیرخواہی و خبرگیری کی بجائے آپس کے اختلاف و انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ آپس میں بغض و نفرت کا ماحول بن جاتا ہے، اعاذنا اللّٰہ تعالٰی من ذٰلک۔
بندہ ذیل میں دونوں فریقوں کے ایسے تمام حضرات کو ایک اہم امر کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انہیں راہ اعتدال و احتیاط کی تلقین کرتا ہے:
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وقت صبحِ صادق کے آغاز سے متعلق ہمارے حضرت والا رحمہ اللہ تعالیٰ کو آخر تک پندرہ درجہ زیرِ افق کی تحقیق پر مکمل شرحِ صدر تھا اور آپ اٹھارہ درجہ کے قول کو متعدد وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل رسالہ ’’صبحِ صادق‘‘ مندرجہ احسن الفتاویٰ جلد۲ میں ہے۔ بحمداللہ تعالیٰ! دارالافتاء کے موجودہ ذمہ داران بھی حضرتؒ کی تحقیق سے مکمل طور پر متفق ہیں، لیکن جہاں ایک طرف حضرت کا شرحِ صدر ایک حقیقت ہے وہیں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرتؒ نے بعض اکابر اہل علم کے اس مسئلے سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نقشوں کی عمومی اشاعت پر کبھی بھی اصرار نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ کی زندگی ہی میں ’’ضربِ مؤمن‘‘ اور ’’روزنامہ اسلام‘‘ کے پورے عروج پر ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپؒ نے کبھی بھی ان ذرائع اشاعت کو اس مسئلہ کو اُٹھانے یا اپنے نقشوں کی اشاعت کے لیے استعمال نہیں فرمایا، بلکہ اس سے منع بھی فرمایا۔
حضرتؒ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ اہلِ علم کے خالص علمی مختلف فہیا مسائل کی عام اشاعت سے اجتناب کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس سے نہ صرف عوام الناس انتشار کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کے دلوں میں علماء سے دوری بھی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ جواہر الرشید جلد اول صفحہ ۵۵ پر ہے کہ مسئلہ صبحِ صادق پر جب بعض اکابر اہلِ علم نے حضرت سے اتفاق فرمانے کے بعد رجوع کرلیا اور اختلاف کی اشاعت ہونے لگی تو حضرتؒ نے اعلان فرمادیا: ’’کسی مسجد میں کسی ایک نمازی کو بھی میرے نقشہ پر اعتراض ہو تو میرا نقشہ مسجد سے ہٹادیا جائے، ہمارا کام مسئلہ بتانا ہے منوانا نہیں۔‘‘
اس لیے پندرہ درجہ کے قول کے مطابق نقشے تیار کرکے صرف اور صرف انہی نقشوں کو عوام میں رائج کرنے پر زور دینے کی بجائے عوام و خواص کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سحری پرانے نقشوں کے مطابق بند کردی جائے، اس کے لیے مسجد سے روزہ بند کرنے کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے اور سائرن بجاکر بھی لوگوں کو مطلع کیا جاسکتا ہے، لیکن اذان و نماز پندرہ درجہ والے نقشے کے مطابق پڑھی جائے۔ اس میں نماز و روزہ دونوں کی یقینی حفاظت ہے اور اس طرح سے دونوں طرح کے اقوال پر عمل ہوجائے گا اور کسی کو اشکال بھی نہیں ہوگا۔
دوسرے فریق… جو ۱۸ درجہ کے مطابق نماز پڑھنے پر اصرار کرتا ہے… سے گزارش ہے کہ آخر غیررمضان میں بھی تو اذان ایسے وقت پر دی جاتی ہے جب تقریباً پندرہ درجہ کا وقت ہوچکا ہوتا ہے اور نماز تو ہمیشہ پندرہ درجہ کے وقت کے کافی دیر بعد ہوتی ہے تو آخر رمضان ہی میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے کہ نماز ہی مشکوک ہوجائے! یہ تجویز نہ صرف ہمارے حضرتؒ کے نزدیک پسندیدہ تھی، بلکہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ کی تحریروں میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔ (باقی صفحہ5پر) حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا ارشاد ہے:
’’میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز روزہ کے معاملہ میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
حضرت بنوریؒ کے الفاظ:
’’ہاں! جس کا جی چاہے نماز دیر سے پڑھے تاکہ اس کو بھی یقین ہوجائے کہ وقت ہوگیا ہے تو اور اچھا ہے۔‘‘ نیز جامعہ دارالعلوم کراچی نمبر ۱۴ سے مورخہ ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۴۲۴ھ کو جاری ہونے والے فتویٰ نمبر ۶۴۰/۵۱ میں واضح الفاظ میں اس تجویز پر عمل کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ کا اقتباس: ’’تاہم سوال میں ذکر کردہ احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے۔‘‘ (کما فی التبویب: ۲۶۰/۲)
دارالعلوم کراچی کے ایک اور فتویٰ نمبر ۸۳۰/۱ میں ہے:
’’حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے دور سے دارالعلوم کراچی میں رمضان میں روزہ ۱۸ درجہ پر بند کیا جاتا ہے اور فجر کی اذان ۱۵ درجہ پر دی جاتی ہے، دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا جاتا ہے۔‘‘ نیز شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بلیک برن (UK) سے آئے ہوئے ایک ای میل کے جواب میں بعینہٖ مندرجہ بالا مضمون تحریر فرمایا ہے۔ یہ جواب 21 اگست 2011ء کو بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت و معرفت اور فہمِ سلیم عطاء فرمائیں۔
(۶) افطار میں عجلت یا تاخیر:
افطار میں بعض لوگ بہت عجلت سے کام لیتے ہیں جس سے روزہ مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نقشوں میں تو اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ پھر سحر و افطار کے نقشوں میں دیئے گئے اوقات یقینی نہیں ہوتے بلکہ حسابی اعتبار سے تقریبی ہوتے ہیں۔ بعض نا سمجھ ریڈیو کی اذان (خواہ وہ کسی دوسرے شہر کی ہی ہو) سن کر افطار کردیتے ہیں، پھر ریڈیو کی اذان اور سائرن وغیرہ عموماً نقشوں کے مطابق بجائے جاتے ہیں، اور کبھی اذان دینے والے وقت دیکھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اور غلط وقت پر اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا ان پر مکمل اعتماد رکرنا صحیح نہیں، خصوصاً جبکہ کئی ایسے واقعات ہو بھی چکے ہیں کہ سائرن یا اذان کے وقت آفتاب کو آنکھوں سے دیکھا گیا ہے، ۱۳ رمضان ۱۳۹۷ھ کو ریڈیو پاکستان نے چار پانچ منٹ قبل ہی اذان دینا شروع کردی، جو ابھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ اس کے بعد صحیح وقت پر اذان نشر کی، لاکھوں افراد نے پہلی اذان پر روزہ افطار کر کے اپنا روزہ خراب کیا، اس لیے اپنی گھڑیوں کو معیاری وقت پر رکھیں اور افطار کسی ماہر کے بنائے ہوئے نقشے میں دیئے گئے وقت کے ۳ منٹ بعد کریں، جہاں اتنے گھنٹے صبر کرلیا وہاں دو تین منٹ کا انتظار کیا مشکل ہے؟
بعض وہمی لوگ وقت ہو جانے کے باوجود افطار میں تاخیر کرتے ہیں، ایسی تاخیر حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔ افطار میں مشغول ہو کر ترکِ جماعت یا تأخیر:
کئی لوگ افطارکے بعد کھانے پینے میں اتنی دیر تک مشغول رہتے ہیں کہ مغرب کی جماعت بالکل فوت ہو جاتی ہے یا ایک دو رکعت نکل جاتی ہیں۔
مسجد کی جماعت نکل جانے پر کچھ حضرات گھر میں اپنی جماعت کرلیتے ہیں جو اکیلے نماز پڑھنے سے تو بہتر ہے مگر مسجد کی جماعت کا کسی طرح بدل نہیں۔
اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ افطاری گھر کی بجائے مسجد میں کی جائے،لیکن اس میں مسجد کے آداب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ کھانے کی کوئی چیز مسجد میں گرنے نہ پائے، اس میں شور و غل بلکہ بلا ضرورت گفتگو بھی نہ ہو اور کوئی ایسا کام بھی نہ کیا جائے جس سے مسجد میں آنے والے نمازیوں کو تشویش ہو۔ اگر گھر مسجد کے قریب ہو تو گھر میں بھی مختصر افطاری کے بعد تکبیرئہ تحریم کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
في الدر: ’’ ویستحب … تعجیل الفطر۔‘‘ وفي الحاشیۃ: ’’ إلا في یوم غیم ولا یفطر مالم یغلب علی ظنہ غروب الشمس وإن أذن المؤذن، بحر، وفیہ عن شرح الجامع لقاضي خان: التعجیل المستحب قبل اشتباک النجوم۔‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۲۰)
- See more at: http://zarbemomin.com.pk/index.php/mutafirakat/612-masla-e-subah-sadiq-mein-ikhtelaf-eik-ahm-wazahat#sthash.6sactn4V.dpufبندہ ذیل میں دونوں فریقوں کے ایسے تمام حضرات کو ایک اہم امر کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انہیں راہ اعتدال و احتیاط کی تلقین کرتا ہے:
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وقت صبحِ صادق کے آغاز سے متعلق ہمارے حضرت والا رحمہ اللہ تعالیٰ کو آخر تک پندرہ درجہ زیرِ افق کی تحقیق پر مکمل شرحِ صدر تھا اور آپ اٹھارہ درجہ کے قول کو متعدد وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل رسالہ ’’صبحِ صادق‘‘ مندرجہ احسن الفتاویٰ جلد۲ میں ہے۔ بحمداللہ تعالیٰ! دارالافتاء کے موجودہ ذمہ داران بھی حضرتؒ کی تحقیق سے مکمل طور پر متفق ہیں، لیکن جہاں ایک طرف حضرت کا شرحِ صدر ایک حقیقت ہے وہیں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرتؒ نے بعض اکابر اہل علم کے اس مسئلے سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نقشوں کی عمومی اشاعت پر کبھی بھی اصرار نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتؒ کی زندگی ہی میں ’’ضربِ مؤمن‘‘ اور ’’روزنامہ اسلام‘‘ کے پورے عروج پر ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپؒ نے کبھی بھی ان ذرائع اشاعت کو اس مسئلہ کو اُٹھانے یا اپنے نقشوں کی اشاعت کے لیے استعمال نہیں فرمایا، بلکہ اس سے منع بھی فرمایا۔
حضرتؒ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ اہلِ علم کے خالص علمی مختلف فہیا مسائل کی عام اشاعت سے اجتناب کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس سے نہ صرف عوام الناس انتشار کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کے دلوں میں علماء سے دوری بھی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ جواہر الرشید جلد اول صفحہ ۵۵ پر ہے کہ مسئلہ صبحِ صادق پر جب بعض اکابر اہلِ علم نے حضرت سے اتفاق فرمانے کے بعد رجوع کرلیا اور اختلاف کی اشاعت ہونے لگی تو حضرتؒ نے اعلان فرمادیا: ’’کسی مسجد میں کسی ایک نمازی کو بھی میرے نقشہ پر اعتراض ہو تو میرا نقشہ مسجد سے ہٹادیا جائے، ہمارا کام مسئلہ بتانا ہے منوانا نہیں۔‘‘
اس لیے پندرہ درجہ کے قول کے مطابق نقشے تیار کرکے صرف اور صرف انہی نقشوں کو عوام میں رائج کرنے پر زور دینے کی بجائے عوام و خواص کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سحری پرانے نقشوں کے مطابق بند کردی جائے، اس کے لیے مسجد سے روزہ بند کرنے کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے اور سائرن بجاکر بھی لوگوں کو مطلع کیا جاسکتا ہے، لیکن اذان و نماز پندرہ درجہ والے نقشے کے مطابق پڑھی جائے۔ اس میں نماز و روزہ دونوں کی یقینی حفاظت ہے اور اس طرح سے دونوں طرح کے اقوال پر عمل ہوجائے گا اور کسی کو اشکال بھی نہیں ہوگا۔
دوسرے فریق… جو ۱۸ درجہ کے مطابق نماز پڑھنے پر اصرار کرتا ہے… سے گزارش ہے کہ آخر غیررمضان میں بھی تو اذان ایسے وقت پر دی جاتی ہے جب تقریباً پندرہ درجہ کا وقت ہوچکا ہوتا ہے اور نماز تو ہمیشہ پندرہ درجہ کے وقت کے کافی دیر بعد ہوتی ہے تو آخر رمضان ہی میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے کہ نماز ہی مشکوک ہوجائے! یہ تجویز نہ صرف ہمارے حضرتؒ کے نزدیک پسندیدہ تھی، بلکہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ کی تحریروں میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔ (باقی صفحہ5پر) حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا ارشاد ہے:
’’میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز روزہ کے معاملہ میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
حضرت بنوریؒ کے الفاظ:
’’ہاں! جس کا جی چاہے نماز دیر سے پڑھے تاکہ اس کو بھی یقین ہوجائے کہ وقت ہوگیا ہے تو اور اچھا ہے۔‘‘ نیز جامعہ دارالعلوم کراچی نمبر ۱۴ سے مورخہ ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۴۲۴ھ کو جاری ہونے والے فتویٰ نمبر ۶۴۰/۵۱ میں واضح الفاظ میں اس تجویز پر عمل کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ کا اقتباس: ’’تاہم سوال میں ذکر کردہ احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے۔‘‘ (کما فی التبویب: ۲۶۰/۲)
دارالعلوم کراچی کے ایک اور فتویٰ نمبر ۸۳۰/۱ میں ہے:
’’حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے دور سے دارالعلوم کراچی میں رمضان میں روزہ ۱۸ درجہ پر بند کیا جاتا ہے اور فجر کی اذان ۱۵ درجہ پر دی جاتی ہے، دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا جاتا ہے۔‘‘ نیز شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بلیک برن (UK) سے آئے ہوئے ایک ای میل کے جواب میں بعینہٖ مندرجہ بالا مضمون تحریر فرمایا ہے۔ یہ جواب 21 اگست 2011ء کو بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت و معرفت اور فہمِ سلیم عطاء فرمائیں۔
(۶) افطار میں عجلت یا تاخیر:
افطار میں بعض لوگ بہت عجلت سے کام لیتے ہیں جس سے روزہ مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نقشوں میں تو اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ پھر سحر و افطار کے نقشوں میں دیئے گئے اوقات یقینی نہیں ہوتے بلکہ حسابی اعتبار سے تقریبی ہوتے ہیں۔ بعض نا سمجھ ریڈیو کی اذان (خواہ وہ کسی دوسرے شہر کی ہی ہو) سن کر افطار کردیتے ہیں، پھر ریڈیو کی اذان اور سائرن وغیرہ عموماً نقشوں کے مطابق بجائے جاتے ہیں، اور کبھی اذان دینے والے وقت دیکھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اور غلط وقت پر اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا ان پر مکمل اعتماد رکرنا صحیح نہیں، خصوصاً جبکہ کئی ایسے واقعات ہو بھی چکے ہیں کہ سائرن یا اذان کے وقت آفتاب کو آنکھوں سے دیکھا گیا ہے، ۱۳ رمضان ۱۳۹۷ھ کو ریڈیو پاکستان نے چار پانچ منٹ قبل ہی اذان دینا شروع کردی، جو ابھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ اس کے بعد صحیح وقت پر اذان نشر کی، لاکھوں افراد نے پہلی اذان پر روزہ افطار کر کے اپنا روزہ خراب کیا، اس لیے اپنی گھڑیوں کو معیاری وقت پر رکھیں اور افطار کسی ماہر کے بنائے ہوئے نقشے میں دیئے گئے وقت کے ۳ منٹ بعد کریں، جہاں اتنے گھنٹے صبر کرلیا وہاں دو تین منٹ کا انتظار کیا مشکل ہے؟
بعض وہمی لوگ وقت ہو جانے کے باوجود افطار میں تاخیر کرتے ہیں، ایسی تاخیر حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔ افطار میں مشغول ہو کر ترکِ جماعت یا تأخیر:
کئی لوگ افطارکے بعد کھانے پینے میں اتنی دیر تک مشغول رہتے ہیں کہ مغرب کی جماعت بالکل فوت ہو جاتی ہے یا ایک دو رکعت نکل جاتی ہیں۔
مسجد کی جماعت نکل جانے پر کچھ حضرات گھر میں اپنی جماعت کرلیتے ہیں جو اکیلے نماز پڑھنے سے تو بہتر ہے مگر مسجد کی جماعت کا کسی طرح بدل نہیں۔
اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ افطاری گھر کی بجائے مسجد میں کی جائے،لیکن اس میں مسجد کے آداب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ کھانے کی کوئی چیز مسجد میں گرنے نہ پائے، اس میں شور و غل بلکہ بلا ضرورت گفتگو بھی نہ ہو اور کوئی ایسا کام بھی نہ کیا جائے جس سے مسجد میں آنے والے نمازیوں کو تشویش ہو۔ اگر گھر مسجد کے قریب ہو تو گھر میں بھی مختصر افطاری کے بعد تکبیرئہ تحریم کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
في الدر: ’’ ویستحب … تعجیل الفطر۔‘‘ وفي الحاشیۃ: ’’ إلا في یوم غیم ولا یفطر مالم یغلب علی ظنہ غروب الشمس وإن أذن المؤذن، بحر، وفیہ عن شرح الجامع لقاضي خان: التعجیل المستحب قبل اشتباک النجوم۔‘‘ (ردالمحتار مع الدر: ۲/۴۲۰)
No comments:
Post a Comment