Friday, April 4, 2014

نصف علم ۔ اسلامی قانون وراثت ۔ سیکھئے !



 (مبادیات علمِ میراث)
            علم میراث کو علم فرائض بھی کہتے ہیں ،علم فرائض کے متعلق پہلاسبق چھ باتوں پر مشتمل ہے:
            ١۔تعریف  ٢۔ موضوع  ٣۔ غرض وغایت  ٤۔  مأخذ  ٥۔اسبابِ ارث  ٦۔فضیلت
(١)  علم فرائض کی تعریف :
       ھو علم بِاُصُوْلٍ مِن فِقْہٍ وَحِسَابٍ یُعْرَفُ بِھاحَقُ کُلِّ واحدٍ مِنَ الْوَرَثةِ مِن التَّرَکَةِ۔
ترجمہ:   علم میراث،فقہ اور حساب کے چند ایسے قوانین جاننے کانام ہے، جن کے ذریعے ہر وارث کاحصہ ترکہ میں سے معلوم ہو جاتاہے۔
(٢)  موضوع:      تقسیم الترکات۔
(٣)  غرض :        یصالُ الحقوق لِأربابھا۔(حقداروں کو ان کاحق پہنچانا)
(٤)  مأخذ:           قرآن،سنت اور اجماع امت۔
(٥)اسباب ارث:  رحم،نکاح،وَلائ۔
(٦)  فضیلت :       علم فرائض کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اکثر احکام ومسائل میں صرف ان کے اصول وکلیات کے بیان پر اکتفافرمایاہے اور علم فرائض کے متعلق فروعی مسائل اور جزئیات تک کو بیان فرمایاہے، احادیث میں بھی اس کی بہت فضیلت آئی ہے،یہاں تک کہ ایک حدیث میں اس کو نصف علم قرار دیاہے، چنانچہ ارشاد نبوی e ہے :
                        ''  تَعَلَّمُواالفرائضَ وعلِّمُوہ الناسَ فانّہ نصف العلم ''

ترکہ اور اس کے متعلق حقوق کابیان
ترکہ:     ہروہ مال جو بوقت انتقال میت کی ملکیت میں ہو اور اس کے عین کے ساتھ کسی غیر کاحق متعلق نہ ہو ترکہ کہلاتاہے۔
            ترکہ کے ساتھ بالترتیب چار قسم کے حقوق متعلق ہو تے ہیں:
            ١۔  تجہیز وتکفین   ٢۔  قضاء الدیون    ٣۔  تنفیذ الوصایا   ٤۔ تقسیم الترکات
(١)  تجہیزوتکفین: قال علماء نا  تتعلق بترکة ا لمیت حقوق اربعة …الخ (ص٢،٣)
            سب سے پہلے میت کے پورے مال میں سے اس کے دفن تک کے تمام ضروری مراحل کے متوسّط اخراجات کو نکالاجاسکتاہے۔ جیسے: غسال کی اجرت،کفن اور قبر کھود نے کاخرچ وغیرہ۔
(٢)  قضاء الدیون :                 ]ثم تقضیٰ دیونہ من جمیع مابقی من مالہ (ص٣)[
            تجہیز کے بعد جو مال بچ جائے اور میت پر کسی کاقرض ہو تو اسے اس بقیہ مال سے اداکیاجائیگا۔
(٣)تنفیذالوصایا:                  ]ثم تنفذ وصایاہ من ثلث مابقی بعد الدین(ص٣)[
            اگر میت نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو تو دیکھیں گے کہ تجہیز وقضاء الدیون کے بعد بقیہ مال میں سے ثلث (تہائی)تک کی وصیت کی ہے یاثلث سے زائد،اگر ثلث تک کی وصیت کی ہے تو اس کو نافذ کر ناضروری ہے،اگر ثلث سے زائد کی وصیت کی ہے تو ثلث تک تو نافذکرناضروری ہے،ثلث سے زائد کو نافذ کر ناضروری نہیں۔
(٤)تقسیم الترکات:                            ]ثم تقسم الباقی بین ورثتہ (ص٣)[
            اوپر بیان کئے گئے تین حقوق کے بعد اگر کو ئی مال بچ جائے تو اس کو تقسیم میراث کے قواعد کے مطابق میت کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا۔


…(حل شدہ مثالیں)…
مثال(١): ایک آدمی نے کل ترکہ 10,000روپے چھوڑا2,000تکفین وتجہیزپر خرچ ہوا،باقی 8,000بچ گیا،اس میں سے 2,000اس پر قرض تھا وہ ادا کردیا،باقی 6,000رہ گیا،اس نے 1,000روپے دینی کام میں خرچ کرنے کی وصیت کی تھی (جوکہ باقی6,000)کے تہائی 2,000سے کم ہے ،لہذا کل وصیت پر عمل کرکے ،1,000روپے دینی کام میں لگادئے ،اب باقی قابل تقسیم ترکہ 5,000روپے ہے۔جو اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مثال (٢):            اگر مذکورہ بالا مثال (١)میں 2,000کی وصیت کی ہو تو بھی کل وصیت پر عمل کیا جائے گا،البتہ اس صورت میں قابل تقسیم ترکہ 4,000روپے ہوگا۔
مثال (٣):            اوراگر مثال (١)میں 1,000روپے کی بجائے 3,000روپے کی وصیت کی ہو،تواس صورت میں2,000میں اس کی وصیت پوری کی جائے گی،اور باقی 1,000روپے میں وصیت پوری کرنا ضروری نہیں ،کیونکہ یہ باقی مال کے تہائی سے زیادہ ہے ،قابل تقسیم ترکہ اس صورت میں 4,000روپے ہی ہوگا،البتہ اگر تمام ورثاء کی رضامندی ہو اور ان میں کوئی نابالغ وغیرہ بھی نہ ہو توتہائی سے زیادہ 3,000پر عمل کیا جاسکتا ہے،ورگرنہ نہیں۔
فرائض کابیان
(ورثاء کے حصے)
]باب معرفة الفروض ومستحقیھا:الفروض المقدرة فی کتاب اللہ  ستة (ص٦)[
            فرائض جمع ہے، '' فَرِیْضَة '' کی بمعنیٰ ''حصہ''۔اس سے مراد ہر وہ خاص حصہ ہے جس کو شریعت نے کسی وارث کے لئے مقرر کیاہو۔فرائض کل چھ ہیں،جن کو دو نوعوں پر تقسیم کیاگیاہے :
             نصف،ربع،ثمن؛  ثلثان،ثلث،سدس   (علی التضعیف والتنصیف)
            پہلے تین کو ''نوعِ اول ' 'اور دوسرے تین کو ''نوعِ ثانی'' کہتے ہیں۔
فائدہ:      فرائض کی دونوں نوعوں میں ایک خاص نسبت ہے جس کو ''نسبت التضعیف والتنصیف''سے تعبیر کیاجاتاہے، مطلب اس کایہ ہے کہ مذکورہ ترتیب کے مطابق جب دائیں سے بائیں کی طرف آئیں گے تو ہر پہلا،دوسرے کاضِعف (دُگنا)ہو گا،لہٰذانصف،ربع کاضِعف ہے، ربع،ثمن کاضعف ہے، اسی طرح دوسری نوع میں ثلثان،ثلث کاضعف ہے،ثلث،سدس کاضعف ہے۔اور جب بائیں سے دائیںجائیں گے تو ہر پہلا، دوسرے کانصف ہو گا، لہٰذاثمن، ربع کانصف ہے، ربع، نصف کانصف ہے اور اسی طرح دوسری نوع میں سدس، ثلث کانصف اور ثلث،ثلثان کانصف ہے۔(فافہم )(مندرجہ ذیل مثال پر غورکریں)
…(مثال)…
نوع اول
نوع ثانی
 ٢٤
نصف: 

١٢

ثلثان: 

١٦

رُبع: 

٦

ثلث: 

٨

ثُمُن: 

٣

سدس:  

٤

کل ٢٤حصص ہوں تو ان کانصف :١٢،ربع:٦،ثمن:٣اورثلثان :١٦،ثلث:٨،سدس:٤ ہوتاہے۔
مخارج کابیان
            ]باب مخارج الفروض: اعلم ان الفروض …الخ(ص١٧)[
            ''مخارج'' جمع ہے ''مخرج ''کی۔
مخرج:      ہر وہ چھوٹے سے چھوٹاعدد جس سے کو ئی حصہ نکل سکے،مخرج کہلاتاہے۔
مسئلہ بنانے کے طریقے :      ]فاذاجاء فی المسائل من ھذہ الفروض احاد احاد(ص١٨)[
            مسئلہ بنانے کے کئی طریقے ہیں : جن میں سے پہلاطریقہ صاحب سراجی  h کاہے۔
مسئلہ بنانے کاپہلاطریقہ:
            اس کاخلاصہ یہ ہے کہ دیکھیں گے کہ حصہ ایک ہے یاایک سے زائد۔اگر حصہ ایک ہے تو اسی حصے کے نام کے اعتبار سے مسئلہ بنایاجائے گا،سوائے نصف کے کہ اس کامخرج ہر حال میں ''٢''ہوگا۔لہٰذا ربع کامخرج ''٤''۔ ثمن کا''٨''۔ثلثان،ثلث کا''٣''۔اور سدس کامخرج ''٦''ہوگا۔
            اور اگر حصے ایک سے زائد ہوں تو دیکھیں گے کہ تمام حصے ایک ہی نوع میں سے ہیں یامخلوط۔اگر ایک ہی نوع میں سے ہیں تو مسئلہ چھوٹے حصے کے اعتبار سے بنایاجائے گا،لہٰذانصف اور ربع جمع ہو جائیں تو مسئلہ ''٤''سے،ربع وثمن جمع ہو جائیں تو مسئلہ ''٨'' سے،نصف یاربع میں سے کو ئی ایک یادونوں ثمن کے ساتھ آجائیں تو مسئلہ ''٨'' سے بنے گا۔ اگر ثلثان وثلث جمع ہو جائیں تو مسئلہ ''٣''سے،اگر ثلثان یاثلث میں سے کو ئی ایک یادونوں سدس کے ساتھ جمع ہوجائیںتومسئلہ''٦''سے بنے گا۔  واذا اختلط النصف من الاول بکل الثانی او ببعضہ فہومن ستةالخ (ص١٨)
            اگر حصے مخلوط ہوں تو دیکھیں گے کہ نوع اول میں سے ایک حصہ نوع ثانی کے کل یابعض کے ساتھ مل رہاہے یاایک سے زائد۔ اگر نوع اول میں سے ایک حصہ نوع ثانی کے کل یابعض کے ساتھ مل رہاہے،توپھردیکھیںگے کہ اگر وہ نصف ہے تو''٦''سے مسئلہ بنے گا، اگر ربع ہے تو مسئلہ ''١٢'' سے،اگر ثمن ہے تو مسئلہ''٢٤''سے بنے گا۔
            اگر نوع اول میں سے ایک سے زائد حصے نوع ثانی کے کل یابعض کے ساتھ مل رہے ہیں تو نوع اول کے چھوٹے حصے کے اعتبار سے مسئلہ بنایاجائے گا،لہٰذااگر نصف وربع نوع ثانی کے کل یابعض کے ساتھ آجائیں  تو مسئلہ''١٢''سے بنے گا،اگر نصف وثمن یاربع وثمن،نوع ثانی کے کل یابعض کے ساتھ آجائیں  تو مسئلہ''٢٤'' سے بنے گا۔
فائدہ :     نوع اول میں سے اگر'' نصف ''،ثلث مابقی کے ساتھ آجائے تو مسئلہ حسبِ سابق ''٦'' سے بنے گااوراگر ''ربع''،ثلث الباقی کے ساتھ آجائے تو مسئلہ''٤''سے بنے گا۔اور جہاں ذوی الفروض نہ ہوں،وہاں ابتداء ً مسئلہ ''ایک''سے بنے گا۔
مسئلہ بنانے کادوسراطریقہ :
            دوسراطریقہ ذواضعاف اقل(LCM) کاہے ،ورثاء کے حصوں کے مخارج کو بالترتیب لکھ کر ان کاذواضعاف اقل نکال کرجوجواب حاصل ہو، اسی سے مسئلہ بنایاجائے۔   
            جیسے :ایک وراث کا حصہ ربع(

)اوردوسرے وارث کاحصہ ثلث(

)ہو تو٤،اور٣،کا ذواضعاف اقل ١٢ہے ،لہٰذامسئلہ ''١٢''سے بنے گا۔

مسئلہ بنانے کاتیسراطریقہ :

            ہر مسئلہ  ''٢٤''سے بنایاجائے۔

No comments:

Post a Comment